تاریخی عمارات کی طرح لاہور کے بعض خاص چوک اور بازار بھی اہمیت کے حامل ہیں لیکن لکشمی چوک کی رونق کو تو سبھی سراہتے ہیں۔ یہ چوک ریلوے سٹیشن سے آنے والی میکلوڈ روڈ، شملہ پہاڑی سے آنے والی ایبٹ روڈ اور نسبت روڈ کے درمیان میں واقع ہے۔ لکشمی چوک کا نام لکشمی بلڈنگ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ یہ بلڈنگ 1935ء کو ہندوستان کی ایک مشہور کمپنی، لکشمی انشورنس کمپنی نے خریدی۔ اس کمپنی نے لاہور میں ایک اور عمارت مال روڈ پر لکشمی کے نام سے تعمیر کی۔ اس طرح کی ایک عمارت لکشمی بلڈنگ کے نام سے کراچی میں بھی موجود ہے۔ لکشمی چوک اردگرد کی آبادیوں گوالمنڈی، قلعہ گوجرسنگھ، فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ سے 5 فٹ نشیب میں ہے لہٰذا ان آبادیوں کا تمام گندا پانی اس طرف ہی آتا تھا۔ چنانچہ 1935ء میں ہی ایک انگریز انجینئر مسٹر ہاول نے لکشمی چوک سے شام نگر (چوبرجی) میں واقع گندے انجن (پمپنگ سٹیشن) تک زیر زمین سیوریج بچھایا تا کہ اس سے ملحقہ علاقوں تک کا پانی کھیتوں میں دینے کے علاوہ سپرد راوی کیا جاسکے۔
ان دنوں شام نگر کے پیچھے کھیت ہوتے تھے جو دریائے راوی تک تھے۔ اسی علاقہ میں مغلیہ دور میں اورنگ زیب کی بیٹی زیب النساء نے ایک بہت بڑا باغ بنوایا تھا جس کا دروازہ چوبرجی تھا۔ قیام پاکستان سے قبل اس چوک میں لکشمی بلڈنگ کے علاوہ چوک کے اردگرد مزید عمارات بھی تھیں جن میں گیتابھون، برسٹل ہوٹل، ویسٹ انڈین ہوٹل, مانسرور ہوٹل اور کچھ فلمی دفاتر شامل تھے۔ مسلمانوں کا ایک ہوٹل کنگ سرکل ہوتا تھا ۔ 1940ء سے قبل یہ ایک بے رونق چوک تھا جبکہ رائل پارک ایک کھلا میدان تھا جہاں ٹیلے اور اکھاڑے تھے۔ 1935ء میں جب ہندوستان میں جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اس میدان میں ایک بڑی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہاں پر رائل سرکس نے بھی ڈیرہ لگایا تو اس میدان کو رائل پارک کہا جانے لگا۔ رائل پارک میں بعدازاں کچھ لوگوں نے عمارات بھی تعمیر کر لیں۔ صرف 6، 7 عمارتیں مسلمانوں کی تھیں۔
زاہد عکاسی
(''میرے زمانے کا لاہور‘‘ سے اقتباس)
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments