Lahore

6/recent/ticker-posts

ہربنس پورہ

لاہور شہر سے تقریباً نوکلو میٹر دور مشرقی جانب ایک علاقہ ہربنس پورہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1886ء میں راجہ ہربنس سنگھ نے شہر سے باہر مشرقی سمت میں ایک گاؤں بسایا جوکہ بعد میں ہربنس پورہ مشہور ہوا۔ یہ گاؤں سر سبز قطعات پر مشتمل فارمز تھے جہاں پھلوں کے درختوں کے طویل سلسلے تھے۔ اس فارم سے ملحق آبادی جو کہ اصل ہربنس پورہ کہلاتی تھی، میں فارمز کے مزارعے ، کسان ،کاشت کار جو کہ زیادہ تر مسلمان تھے، رہتے تھے۔ ان کی اولاد اب بھی ہربنس پورہ میں قیام پذیر ہے۔ راجہ ہربنس سنگھ 1846 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش ان کے بھائی سردار تیجا سنگھ نے کی کیونکہ ان کی اپنی اولاد نہ تھی۔

انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود لے لیا۔ راجا تیجا سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں اہم کمانڈر تھے۔ ان کی وفات کے بعد راجہ ہربنس سنگھ ان کی خاندانی جائیداد کے وارث بنے۔ ہربنس سنگھ کو رئیس شیخوپورہ کہا جاتا تھا جہاں ان کی بہت جائیداد تھی۔ لاہور میں ان کا گھر ان کے چچا کی حویلی چونا منڈی میں تھا۔ بادشاہی مسجد کی تعمیرو مرمت کے لئے 1872 ء میں غیر مسلم افراد میں راجا ہربنس سنگھ نے سب سے زیادہ چندہ دیا ۔اس کے علاوہ ٹاؤن ہال لاہور میں بنا فوارہ بھی ہربنس سنگھ نے 1893 ء میں لاہور میونسپل کمیٹی کو بطور عطیہ کیا۔ راجہ ہربنس سنگھ 1900 ء میں فوت ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا بڑا بیٹا سردار کرتھی سنگھ وارث ہوا لیکن 1906 ء میں مر گیا۔ اس کے بعد اس کا چھوٹا بھائی فتح سنگھ وارث بنا اور1947 ء میں تقسیم کے وقت اپنے باپ کے بسائے ہوئے ہربنس پورہ کو روتا ہوا چھوڑ کر بھارت چلا گیا ۔ 

ہربنس پورہ میں انگریز دور کا تعمیر کردہ ریلوے اسٹیشن بھی موجود ہے جو کہ اس علاقے کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن امرتسر لائن پر واقع ہے۔ جس کا سن تعمیر باوجود تحقیق معلوم نہیں ہو سکا ہے لیکن قیاس کیا جا سکتا ہے کہ 1890 ء میں تعمیر ہوا ہو گا۔ ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کی اہم وجہ یہ تھی کہ ہربنس پورہ میں برطانوی فضائیہ کی ورکشاپس اور ڈپو تھے جہاں فوج کا مستقل آنا جانا رہتا تھا ۔ فوجی نقل و حمل کے لئے یہاں ریلوے اسٹیشن کی انتہائی ضرورت تھی ایک طرح سے یہ بھی چھاؤنی کا ایک حصہ تھا۔ یہ اسٹیشن لاہور سٹی اسٹیشن کی طرف سے مغلپورہ کے بعد جبکہ واہگہ کی طرف سے جلو اسٹیشن کے درمیان میں آتا ہے ۔

اس اسٹیشن کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب 1930 ء میں ریلوے کے اسٹیم انجنوں کے لئے پانی کی فراہمی کے لئے یہاں پمپ نصب کئے گئے جن کی مدد سے انجنوں میں پانی بھرا جاتا تھا اور امرتسر کی جانب سے آنے والی انجن ٹھنڈے کئے جاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے بنیاد ی پلیٹ فارم تین تھے جبکہ باقی 16 لائنیں الگ سے تھیں، جن میں اب دو زندہ لائنیں رہ گئیں ہیں۔ اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت چھوٹی لیکن مضبوط پختہ اینٹوں کی مدد سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس میں اسٹیشن ماسٹر کا کمرہ ، ٹکٹ گھر اور کانٹا روم ہوتا تھا، جہاں آج کل لوگوں نے اپنے جانور باندھ رکھے ہیں۔

قیام پاکستان تک اس لائن کی خاصی اہمیت تھی۔ بھارت کو پاکستان سے ملانے والی لاہور کی اکلوتی لائن ہونے کی وجہ سے ہربنس پورہ کا یہ ریلوے اسٹیشن 1947 ء تک بہت استعمال ہوتا رہا، لیکن اس کے قریب ہی سرحد بن جانے کی وجہ سے یہ لائن زیادہ استعمال میں نہ رہی۔ لہٰذا اس اسٹیشن کو 1980 ء کے بعد عارضی جبکہ 1996 ء کے بعد مستقل طور پر بند کر دیا گیا ۔ آج کل صرف سمجھوتہ ایکسپریس ہفتے میں دو بار اور چند ایک مال گاڑی گزر جاتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں انجنوں کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا اور پانی بھرا جاتا تھا ۔

وہ پمپ بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے جن میں سے 1906 ء کا ایک پمپ ایک یادگار کے طور پر کھڑا ہے۔ اس اسٹیشن کی عمارت بطور اصطبل استعمال ہو رہی ہے جبکہ اس سے ملحق کمرے، جن میں بتی گودام ، تیل گودام، بکنگ آفس اور اسٹیشن سے ملحق اسٹاف کے کمرے شامل تھے، محکمہ کے ناروا سلوک اور مبینہ قبضہ گروپوں کے ہاتھوں اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ اس طرح لاہور میں چپے چپے پر تاریخی آثار و باقیات بکھرے ہوئے ہیں جنہیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے ۔

فیضان عباس


 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments