Lahore

6/recent/ticker-posts

دیال سنگھ اور لاہور

سردار دیال سنگھ 1849ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام لہنا سنگھ تھا۔ یہ جٹ گل گھرانے کے سکھ جاگیردار تھے۔ ان کے آبائو اجداد مجیٹھیہ کے رہنے والے تھے۔ یہ مشہور قصبہ امرتسر سے دس میل شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔ ان کے پردادا مندھو سنگھ اور دادا سردار دیسا سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اپنے علاقے کے بڑے زمیندار تھے اور سکھ دربار میں بڑی عزت اور مرتبہ رکھتے تھے۔ انہیں جاگیریں بھی عطا کی گئی تھیں۔ رنجیت سنگھ کے حکم پر سردار دیسا سنگھ نے پنجاب کی پہاڑی ریاستوں پر حملہ کر کے ان علاقوں کو رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل کیا تھا۔

رنجیت سنگھ نے دیسا سنگھ کو ’’قیصر اقتدار‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ سردار دیسا سنگھ کی موت (1832ئ) کے بعد اس کا لڑکا لہنا سنگھ جائیداد و جاگیر کا وارث بنا۔ لہنا سنگھ بڑا دیانتدار و وفا شعار انسان تھا۔ رنجیت سنگھ نے اسے ’’احسان الدولہ‘‘ کاخطاب عطا کیا تھا۔ بعد میں لہنا سنگھ کلکتہ چلا گیا اور وہاں رہائش اختیار کر لی لیکن انگریزوں نے اسے بلوایا اور امرتسر اور مانجھے کے علاقے کا گورنر مقرر کر دیا۔ 1853ء میں لہنا سنگھ بنارس چلا گیا اور وہیں ایک سال کے بعد مر گیا۔ لہنا سنگھ کی موت کے بعد اس کے گھر والے بنارس چھوڑ کر اپنے آبائی قصبہ مجیٹھیہ چلے آئے۔ اس وقت دیال سنگھ کی عمر پانچ سال کی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی ماں بھی چل بسی۔ 

جاگیر کا انتظام کورٹ آف وارڈز کے سپرد کیا گیا۔ سردار تیجہ سنگھ دیال سنگھ کا سرپرست تھا۔ دیال سنگھ نے بچپن مجیٹھیہ‘ امرتسر‘ بٹالہ اور کانگڑہ میں گزارا۔ موسم گرما عموماً کانگڑے میں گزارتا۔ تعلیم مکمل ہونے پر دیال سنگھ کی شادی کر دی گئی۔ 1870ء کورٹ آف وارڈز نے جاگیر کا انتظام اس کے سپرد کر دیا۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی انگریزی‘ فارسی اور ہندی پر اچھا عبور رکھتا تھا۔ جسمانی طور پر بڑا خوبصورت اور جوان تھا۔ وہ بہترین گھوڑ سوار‘ مضبوط ارادے کا مالک اور فرقہ بندی کے خلاف تھا۔ عوام میں گھل مل جانے کا عادی تھا اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔

لاہور منتقل ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں کے حلقوں میں اور اعلیٰ طبقوں میں اٹھنا بیٹھنا ہوا۔ راجہ رام موہن رائے اور کیشب چندرسین کی تحریروں سے بڑا متاثر تھا۔ 1869ء میں برہمو سماج کے رہنما کیشب چندرسین کے ہمراہ پنجاب کا سفر کیا اور مختلف شہروں میں برہمو سماج کی شاخیں قائم کیں۔ 1875-76ء میں یورپ کا دورہ کیا۔ لندن کا قیام دیال سنگھ کی زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ وہاں کے رہن سہن سے متاثر ہو کر سر کے بال کٹوا دیے۔ سگریٹ پینے لگا اور مسلمان باورچی ملازم رکھے۔ 1885ء میں کانگریس قائم ہو چکی تھی۔ سردار دیال سنگھ اس سیاسی تنظیم میں بھی سرگرمی سے حصہ لینے لگے۔ 1888ء میں الہٰ آباد میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔

لاہور میں دادا بھائی نوروجی کی صدارت میں 1893ء کے کانگریس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر استقبالیہ کمیٹی کے صدر مقرر کیے گئے۔ پنجاب نیشنل بنک قائم کرنے میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا اور بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین مقرر کیے گئے۔ سردار دیال سنگھ کو تعلیم کی اشاعت سے بڑی دلچسپی تھی۔ 1881ء میں انہوں نے یونین اکیڈمی قائم کی جو ایک تعلیمی ادارہ تھا۔ سردار دیال سنگھ کی وفات کے بعد 1910ء میں اس ادارے کو ترقی دے کر دیال سنگھ کالج قائم کیا گیا۔ تین مئی 1910ء کو گورنر پنجاب نے دیال سنگھ سکول کا افتتاح کیا۔ 

کالج کے قیام کے ساتھ 275 طلبہ کی رہائش کے لئے ایک ہوسٹل بھی تعمیر کرایا گیا۔ 1881ء میں سردار دیال سنگھ نے انگریزی اخبار ’’ٹریبیون‘‘ لاہور سے جاری کیا جو سریندر ناتھ بزیجی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ سردار دیال سنگھ کو سکھوں کی تاریخ سے بہت دلچسپی تھی۔ 1895ء میں نیشنلزم پر ایک کتابچہ بھی تحریر کیا۔ دیال سنگھ لائبریری کی موجودہ عمارت 1928ء میں تعمیر ہوئی۔ حسب وصیت لالہ کاشی رام نے دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری قائم کی۔ 1884ء میں سرسید احمد خاں علی گڑھ کالج کے چندہ کے حصول کے لیے پنجاب کے دورے پر آئے تو 30 جنوری 1884ء کو لاہور ریلوے سٹیشن پر خاں بہادر برکت علی خاں کے علاوہ سردار دیال سنگھ اور دوسرے معززین نے ان کا استقبال کیا۔ سرسید احمد خان خود دو دن کے بعد سردار دیال سنگھ کی رہائشگاہ پر ان سے ملنے گئے اور علی گڑھ اور ہندوستانی عوام کی فلاح و بہبود پر تفصیلی گفتگو کی۔ تین فروری 1884ء کو ایک جلسے میں انڈین ایسوسی ایشن کی طرف سے علی گڑھ کالج کے لیے سرسید کی خدمت میں چندہ کی شکل میں ایک خطیر رقم پیش کی گئی۔ 

جس کی لاگت سے علی گڑھ میں مجیٹھیہ ہوسٹل تعمیر کیا گیا۔ سردار دیال سنگھ صاحب تصنیف بھی تھے۔ سردار دیال سنگھ نے دو شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ کئی پشتوں سے جاگیردار چلے آ رہے تھے۔ بہت بڑی جائیداد کے مالک تھے لیکن دل میں قوم کا درد رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک وقف کی صورت میں چھوڑ دی۔ 15جون 1895ء کو بارہ صفحات پر مشتمل ایک وصیت نامہ تحریر کیا۔ نو افرادپر مشتمل ایک ٹرسٹ بنایا گیا جو انکی جائیداد کی دیکھ بھال اور وصیت پر عمل پیرا ہونے کا ذمہ دار تھا۔ 25 اگست 1896ء کو سردار دیال سنگھ کے جوڑوں میں درد کی شکایت شروع ہوئی۔

ڈاکٹروں نے علاج میں کسر نہ اٹھا رکھی۔ اسی بیماری میں نو ستمبر 1898ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کے بعد ان کے قریبی عزیز سردار گنجدر سنگھ کی درخواست پر وصیت نامہ کھولا گیا۔ وصیت نامہ میں ایک اعلیٰ معیار کے آرٹس کالج کا قیام‘ ایک پبلک لائبریری اور انگریزی اخبار ٹریبیون کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ دیال سنگھ کالج اور دیال سنگھ لائبریری آج بھی سردار دیال سنگھ اور ان کے آبائو اجداد کی یادوں کو لیے ہوئے موجود ہیں۔

حمیر ہاشمی


 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments