دنیا میں ٹرانسپورٹ ذرائع کو معاشی و معاشرتی ترقی میں انتہائی اہمیت حاصل
ہے، ترقی یافتہ ممالک جدید ذرائع آمدورفت سے نہ صرف ترقی کی تیز رفتار منازل طے کرتے ہیں بلکہ ان ذرائع کے استعمال سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا جدید اور بہترین نظام مہذب معاشروں کی پہچان ہوتا ہے۔ 1990ء میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے پہلی موٹروے کی تعمیر کا آغاز ہوا تو اس منصوبے پر زبردست تنقید کی گئی اور اسے پاکستان کے عوام کے لئے عیاشی قرار دیا گیا ، حکومتی سطح پر اس منصوبے کی تشہیر میں اسے دفاعی لائن کہا گیا اس کے باوجود تنقید کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا اس وقت کی حکومت اپنی طبعی عمر پوری کرنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئی دوبارہ 1997ء میں اِسی حکومت نے، جس نے آغاز کیا تھا موٹروے کو مکمل کیا، جس کے بعد آج اس کے کئی اور سیکٹر مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ لاہور سے کراچی موٹروے کی تعمیر کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہا ہے۔ میٹروپولیٹن میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل کے حل کے لئے مختلف ادوار میں متعدد تجاویز زیر غور رہیں تاہم حقیقی بنیادوں پر کوئی قابل عمل پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔ آج لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ تنقید کی زد میں ہے اور بعض حلقے حقائق کاجائزہ لئے بغیر موشگافیوں میں مصروف ہیں جنہیں شائد علم ہی نہیں کہ پاکستان بھر میں موٹروے کی طرح یہ میٹرو ٹرین شاہکارمنصوبہ ہو گا۔ امریکہ کے تیسرے بڑے شہر شکاگو میں اورنج لائن ٹرین سے روزانہ ہزاروں مسافر اپنے بھاری سامان سمیت منزلوں تک پہنچتے ہیں۔ لاہور شہر میں اسی نام سے ٹرین سروس خوش آئند امر ہے، جس کی آنے والے دنوں میں دیگرشہروں میں تقلید کی جائے گی۔ اگر 90ء کی دہائی کی موٹروے کی طرح میٹرو ٹرین کے منصوبے کو پنجاب حکومت لاہور میں شروع کر رہی ہے تو اس کی کامیابی کے لئے د عا اور دوا دونوں کرنا ہم کا فرض ہے نہ کہ حقائق کا جائزہ لئے بغیر اس پر تنقید۔
لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کا شاندار منصوبہ سبک رفتار ، محفوظ ، آرام دہ اور باکفایت ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی ایک اور منزل کی جانب سفر کا آغاز ہے۔ پنجاب حکومت کا لاہور اورنج لائن میٹروٹرین پراجیکٹ 27 کلومیٹر طویل ہو گا، جس میں کل 26 پسنجر سٹیشن ہوں گے اور مسافروں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے شروع ہو کرآئندہ دس برسوں میں پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہونے کی توقع ہے، جبکہ اس پراجیکٹ کا 27 ٹرینوں سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ اِس کے لئے ان علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے، جہاں میٹروبس کا گزر نہیں ہوتا۔ان میں لاہورشہر کے علی ٹاؤن، ٹھوکر نیاز بیگ، ملتان روڈ، سبزہ زار، شاہ نور، صلاح الدین روڈ، بند روڈ، سمن آباد، گلشن راوی، چوبرجی، لیک روڈ، جی پی او، لکشمی چوک ، ریلوے سٹیشن، سلطان پورہ، انجینئرنگ یونیورسٹی، باغبانپورہ، شالا مار باغ، پاکستان منٹ، محمود بوٹی ، سلامت پورہ، اسلام پارک اور ڈیرہ گوجراں کے علاقے شامل ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاہور جیسے کاسموپولیٹن شہر کو مساوی ترقی دینے کی مخلصانہ کوشش ہے، چونکہ شمالی یہ لاہورکی طرف سے اکثر نظراندازہونے کی آواز اُٹھائی جاتی تھی اور پنجاب حکومت نے عملی طور پر میٹروٹرین کے منصوبے میں ان علاقوں کو شامل کر کے ثابت کیا ہے کہ ہر شہری ان کی نظر میں یکساں اہمیت کا حامل ہے۔
میٹرو ٹرین سسٹم کو بھی میٹرو بس کی طرح ایک با اختیار اتھارٹی کے ذریعے چلایا جائے گا۔ مسافروں کو تمام اسٹیشنز پر جدید سہولتیں فراہم کی جائیں گی جس میں ای ٹِکٹنگ کا نظام، برقی زینے، راہنمائی کے لئے نقشے، تربیت یافتہ سٹاف سکیورٹی نظام وغیرہ شامل ہیں۔ ہر اسٹیشن پر مسافروں کو لوپ ایریاز اور اگلے اہم مقامات بارے معلومات فراہم کی جائیں گی۔ میٹرو ٹرین سسٹم کی تکمیل کے بعد لاہور پوری طرح سے ماس ٹرانزٹ رپیڈ سسٹم کے دائرہ کار میں آ جائے گا کیونکہ لاہور کے ایک حصے کامیٹرو بس جبکہ دوسرے حصے کا میٹرو ٹرین احاطہ کرے گی اور اس طرح نا صرف لاہور اور پنجاب بلکہ پورے پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں جدید ذرائع آمدورفت استعمال کرنے والی قوم کی حیثیت سے اجاگر ہو گا۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلاب برپا کر دے گا اور اسے ملکی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ میٹرو ٹرین منصوبے کو میٹرو بس کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں وسعت دی جائے گی تا کہ نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب بھر کے دیگر شہروں کے رہائشی بھی اس جدید سہولت سے استفادہ کر سکیں۔
جہاں تک اس منصوبے سے متاثر ہونے والے علاقوں یا تاریخی عمارات کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی سطح پر منصوبے کے آغاز سے قبل تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہو گا۔ کسی ایک چھوٹی سی سڑک کی تعمیر سے بھی بعض لوگ ضرور متاثر ہوتے ہیں، لیکن ایک بڑے اور مشترکہ فائدے کے لئے یقیناً تھوڑ ا بہت نقصان ضرور ہوتا ہے اوراس کا ازالہ کرنے کے لئے حکومتی ادارے موجود ہیں، جو بہرحال اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس منصوبے کے فوائد میں صرف سفری سہولتیں ہی نہیں، بلکہ اس میگا پراجیکٹ سے جڑے ان منصوبوں کوبھی مدنظر رکھنا ہو گا جو بڑے پیمانے پر شہری ترقی ، مقامی سطح پرلوگوں کو روزگار کی فراہمی اور لاہور شہر کے حسن میں اضافے کا باعث ہوں گے، جہاں جہاں سے یہ ٹرین گزرے گی بذات خود ترقی اور جدت کا پیغام ثابت ہو گی۔ اِسی طرح یہ منصوبہ کسی ایلیٹ کلاس سے نہیں،بلکہ عام آدمی کے لئے ہے، جس کے پاس یا تواپنی سواری ہے ہی نہیں اور دوسری شکل میں وہ اپنی بائیک یا گاڑی کھڑی کر کے ٹرین میں سفر کرے تو یہ ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد دے گا۔
پنجاب حکومت نے اورنج لائن کے متاثرین کو اراضی کے معاوضے کے لئے 20 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا پیکج ہے۔ معاوضہ کی ادائیگی سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایویلیوایٹرز کے تخمینے کی بنیاد پر مارکیٹ ریٹ سے بھی زیادہ کی جا رہی ہے ۔ حکومت مالکان کو اراضی پر تعمیر شدہ عمارت کا معاوضہ ، کاروبار کے نقصان کا ازالہ اور رہائش کی منتقلی کے اخراجات کے طور پر اضافی رقم بھی دے رہی ہے۔ اونج لائن ٹرین منصوبے کی تکمیل سے عام آدمی کو بین الاقوامی معیار کی سفری سہولتیں ملیں گی اور یہ منصوبہ بھی فن تعمیر کا اعلی شاہکار ہو گا۔ میٹرو ٹرین کا منصوبہ عام آدمی کو جدید، باوقار اور عالمی معیار کی سفری سہولتیں فراہم کرے گا۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کا تاریخ ساز منصوبہ ٹرانسپورٹ سسٹم میں انقلاب برپا کرے گا اور یہ عوامی خدمت کا شاندار منصوبہ ہے جس سے صوبے میں ٹرانسپورٹ کا جدید کلچر متعارف ہو گا۔ اورنج ٹرین منصوبے کی بدولت تجارتی مراکز کے درمیان فاصلے سمٹنے سے تاجروں کے باہمی روابط بڑھیں گے، بیرون شہر سے آنے والے تاجروں کا قیمتی وقت اور اخراجات دونوں بچیں گے اور وہ انتہائی کم وقت میں اپنی تجارتی سرگرمیاں نمٹا سکیں گے۔
فیصل جاوید
ہے، ترقی یافتہ ممالک جدید ذرائع آمدورفت سے نہ صرف ترقی کی تیز رفتار منازل طے کرتے ہیں بلکہ ان ذرائع کے استعمال سے وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا جدید اور بہترین نظام مہذب معاشروں کی پہچان ہوتا ہے۔ 1990ء میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے پہلی موٹروے کی تعمیر کا آغاز ہوا تو اس منصوبے پر زبردست تنقید کی گئی اور اسے پاکستان کے عوام کے لئے عیاشی قرار دیا گیا ، حکومتی سطح پر اس منصوبے کی تشہیر میں اسے دفاعی لائن کہا گیا اس کے باوجود تنقید کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا اس وقت کی حکومت اپنی طبعی عمر پوری کرنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئی دوبارہ 1997ء میں اِسی حکومت نے، جس نے آغاز کیا تھا موٹروے کو مکمل کیا، جس کے بعد آج اس کے کئی اور سیکٹر مکمل ہو چکے ہیں، جبکہ لاہور سے کراچی موٹروے کی تعمیر کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments