Lahore

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

افسانوی شہرت کی حامل لاہور کی ٹھنڈی سڑک

مال روڈ جسے لاہور میں رہنے والے لوگ کسی زمانے میں ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، ایک سنگل ٹریک سڑک ہوا کرتی تھی ،جس کے دونوں جانب بڑے بڑے درخت تھے، جو اوپر جا کر آپس میں ملے ہوئے تھے ۔ ان درختوں کے ملاپ نے پوری سڑک پرسایہ( شیڈ) کا کام کیا ہوا تھا اور سڑک سے گزرنے والے کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی سرنگ سے گزر رہا ہو۔ قیام پاکستان سے قبل اس سڑک پر زیادہ تعداد پیدل چلنے والوں کو ہوا کرتی تھی کیونکہ اس وقت لاہور میں گاڑیاں صرف چند افراد کے پاس تھیں، ان افراد میں لعل دین قیصر، عبد العزیز مالوراڑہ، میاں وحید، چوہدری غلام رسول وغیرہ کے پاس اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ تین چار گھنٹوں کے بعد ایک کار کا مال روڈ سے گزر ہوتا تھا۔ پیدل چلنے والے لوگ اس گاڑی اور اس میں بیٹھے ہوئے شخص کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔

اس کے علاوہ سات آٹھ نوجوان لڑکوں کے گروہ ’’ہرکولیس‘‘ سائیکلوں پر بیٹھ کر شام کے وقت مال روڈ کی سیر کرنے آیا کرتے تھے ۔ مال روڈ حقیقت میں ایک سیر گاہ تھی، جہاں پر لاہور کے رہائشی تفریح کے لیے آیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت لارنس گارڈن صرف انگریزوں کے لیے مخصوص تھا اور گیٹ پر لکھا ہوا تھا کہ Dogs and Indians are not Allowedترجمہ: کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ مال روڈ پر دکانیں عموماً صبح 9 بجے کھلتی اور شام 5 بجے بند ہو جایا کرتی تھیں اور پھر دور دور تک کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مال روڈ میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ اس سڑک پر زیادہ تر عمارتیں ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں کی ملکیت ہوا کرتی تھیں۔ صرف ایک دو عمارتیں ایسی تھیں، جن کے مالک مسلمان تھے۔ ہندو، سکھ اور انگریز جب لاہور سے چلے گئے، تو یہ تاریخی عمارتیں ان لوگوں کے نام کر دی گئیں ،جو ہندوستان میں اپنی زمین جائیداد چھوڑ آئے تھے یا لاہور کے مقامی لوگوں نے ان سے خرید لیں۔
آج بھی مال روڈ پر ایسی تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جو اپنی نفاست، پختگی اور اعلیٰ فن تعمیر کا نمونہ ہیں، لیکن بہت سی عمارتیں اور یادگار وقت کے ساتھ ناپید ہوتی چلی گئیں۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ واپڈا ہاؤس، الفلاح بلڈنگ، پینوراما سینٹر، نقی مارکیٹ، سٹیٹ بینک، وغیرہ کی جگہ پرانی اور تاریخی عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ نقی مارکیٹ میں آج جہاں دکانیں موجود ہیں، یہاں پر ’’سٹفلیز ز‘‘ ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ شاہ دین بلڈنگ میں ’’لورپنگ‘‘ قائم تھا ۔ ریگل سینما کے ساتھ’’ سٹینڈرڈ ‘‘ہوٹل تھا اور واپڈا ہاؤس کی جگہ ’’میٹرو‘‘ ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ ان ہوٹلوں میں رات کو کی محفلیں جمتی تھیں ۔ نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے ان ہوٹلوں میں ہونے والی محفلوں کو ختم کروایا۔ اس طرح باغ جناح میں جو پہاڑیاں موجود ہیں۔ حقیقت میں ان چا ر پہاڑیوں کو ’’آوے‘‘ کہتے تھے۔ ہندؤ ان پہاڑیوں پر مٹی کے برتن بنایا کرتے تھے۔ ان پہاڑیوں کے اردگرد کھجور کے درخت ہوا کرتے تھے۔ اسلامک سمٹ مینار کے ساتھ ساتھ آج جہاں قرآن مجید رکھا گیا ہے، وہاں پر ملکہ وکٹوریہ کا بت نصب تھا۔ 

فضل دین اینڈ سنز کے ساتھ جارج پنجم کا بت نسب تھا ۔عجائب گھر کے سامنے اورینٹل کالج کے پرنسپل کا مجسمہ آج بھی موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس نے اپنی تمام جائیداد کالج کے نام وقف کر دی تھی اور واپس برطانیہ چلا گیا تھا ۔الفلاح بلڈنگ کی جگہ کوآپرٹیو کا دفتر موجود تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی ۔ اس طرح مال روڈ پر دو سینما گھر یعنی ریگل اور پلازہ پہلے تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ پلازہ تھیٹر میں ڈانسنگ ہال اور بلیئرڈ کلب موجو د تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ باغ جناح جسے لارنس گارڈن کہتے تھے کو سیراب کرنے کے لیے مغلپورہ نہر سے ایک چھوٹی سی نہر نکالی گئی تھی، جو مال روڈ کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ پینوراما سنٹر کی جگہ پر سول اینڈ ملٹری گزٹ آفس ہوا کرتا تھا۔ آج جس جگہ صادق پلازہ موجود ہے، وہاں ایک بلڈنگ موجود تھی ۔ 

یہ بلڈنگ خان بہادر نقی کے بیٹے ایم ڈی کمہار کی ملکیت تھی۔ اسے فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا لہٰذا اس شوق میں یہ بلڈنگ نیلا م ہوئی اور لوگوں نے اسے خستہ حال میں دیکھا۔ غلام رسول بلڈنگ میں آج جہاں ماورا بک ہاؤس ہے، اس کی اوپر والی منزل پر ڈانسنگ ہال ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ’’انڈس‘‘ ہوٹل میں پہلے ریسٹورنٹ تھا۔ یہ ریسٹورنٹ ایک جرمن جوڑے کے ملکیت تھا فیروز سنز کے سامنے ارجنٹینا ہوٹل تھا اس عمارت کی خصوصیت تھی کہ نیچے والا حصہ یورپی طرز کا تھا۔ استنبول چوک میں موجود ’’زمزمہ توپ’’جسے ’’بھینگوں کی توپ‘‘ کہتے ہیں، یہ رنجیت سنگھ کے دور میں دہلی دروازہ کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ انگریزوں نے اس توپ کو موجودہ جگہ پر لا کر رکھا اس طرح مسجد شہداء کی جگہ ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ چار پانچ آدمی نماز پڑھا کرتے تھے۔ 

مال روڈ کو 1964ء میں د و رویہ سڑک کا درجہ دیا گیا۔ ان تمام چیزوں کے باوجود آج بھی مال روڈ پر قریباً70 عمارات ایسی ہیں ،جو ایک تاریخی ورثہ ہیں۔عدالت کے حکم کے مطابق ان عمارتوں کی پرانی شکل کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ان عمارتوں کی حفاظت کرنا ایک قومی فریضہ ہے۔ ان عمارتوں میں سٹیٹ گیسٹ ہاؤس، ایچی سن کالج، پنجاب یونیورسٹی، ٹاؤن ہال، عجائب گھر، جی پی او، ہائی کورٹ اور دیا ل سنگھ مینشن، وغیرہ شامل ہیں۔ مال روڈ جو کبھی ٹھنڈی سڑک کے نام سے مشہور تھی ،آج اسے گاڑیوں کے دھوئیں اور گردو غبار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شہر بھر کے تجارتی مراکز اور سرکاری دفاتر کے باعث بے پناہ رش نے اس سڑک کا افسانوی حسن چھین لیا ہے۔ 

شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں سے مقتبس)

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments