دنیا بھر کے ممالک کے سینکڑوں شہروں میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارلخلافہ لاہور کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ چاہے کوئی امریکی، یورپی، لاطینی، مشرق وسطی، ایشائی، جنوبی ایشیا، براعظم افریقا، براعظم آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کا شہری ہو جب لاہورآتا ہے، تو اس کے منہ سے یہ جملہ بے ساختہ نکلتا ہے کہ واقعی ’’جنے لاہور نہیں ویکھیا اوجمیا ہی نہیں‘‘۔ لاہور شہر میں بسنے والے باشندے زندہ دل، کھلے ذہن اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک دوسروں کو آگے کرنے، درد مشترک، قدر مشترک، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی اقدار کے دلدارہ ہیں۔ لاہور میں کھانے پینے کی اشیا میں ذائقے کا دنیا بھر میں کوئی نعم البدل نہیں ۔ لاہور شہر کے وسط میں نہر، فیروزپور روڈ سے شاہدرہ چلنے والی میٹروبس، اب اورنج لائن ٹرین دریائے راوی، باغات، بارہ دری، لاہور کا قلعہ، بادشاہی مسجد، مینار پاکستان سمیت بے شمار ٹورازم کے پوائنٹس ہیں، جہاں افراد زندگی کے لمحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اندرون شہر ،بارہ دروازے، فوڈسٹریٹ ،لکشمی چوک میں کڑاہی گوشت کے ریسٹورنٹ دیکھ کر ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ کمشنر لاہور ڈویژن محمد عبداللہ خان سنبل ان دنوں خاصی محنت کررہے ہیں اور لاہور کے تاریخی، ثقافتی، سیاحتی امیج کو عالمی سطح پراُجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ لاہور ایک ثقافتی شہر ہے ، لاہور کا یاد گار پوائنٹ، جسے مینار پاکستان کہتے ہیں، اس جگہ پر کئی ایکڑ پر محیط پارک پر حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال کے نام پر گریٹر اقبال پارک تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ کمشنر لاہور ڈویثرن محمد عبداللہ خان سنبل اس پارک کی تعمیرو ترقی کے لیے اپنی ٹیم کے ہمراہ دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اس پارک میں قومی ورثہ ،چاروں صوبوں کی علاقائی ثقافت، شناخت کا سمبل، دلکش فوارے، جھیل، لائبریری، تحریک پاکستان میوزیم، وسیع پارکنگ کا کیا منظر ہوگا؟ ایک طرف بادشاہی مسجد، لاہور قلعہ اور دوسری جانب گریٹر اقبال پارک! یوں سمجھیں اہل اسلامیان پاکستان کی اسلامی تہذیبی، سماجی، ثقافتی، قومی اقدار کی شاخت یکسو دکھائی دے گی۔ کمشنر عبداللہ خان سنبل نے گریٹر اقبال پارک میں عوام الناس کی تفریحی کے لیے سوفٹ ویل ٹرین کا آزمائشی سفر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر لاہور کی خوبصورتی اور تزئین و آرائش کے لیے شہریوں کی جانب سے تجاویز کو خوش آمدید کیا جائے گا۔ اس حوالے سے چند تجاویز ہیں: ؎ شائد کہ دل میں اتر جائے میری بات
1۔ شہر کے داخلی وخارجی راستے لاہور شہر میں شاہدرہ، ملتان روڈ، فیروز پور روڈ، جی ٹی روڈ، سگیاں پل، راوی پل سے لوگ شہرلاہور میں داخل ہوتے ہیں، لہٰذا ان سڑکوں کے داخلی و خارجی راستے پر لاہور کی ثقافت کے حوالے سے خوش آمدید کے ہورڈنگ لگائے جائیں۔ واہگہ باڈر سے لاہور داخلی راستوں پر غازیوں ،مجاہدوں اور شہدا کی تصاویر پرمبنی گیٹ بنائے جا ئیں ۔
2۔ فیروز پور روڈپر لاہور ،ضلع قصور سے لاہور کی طرف علامہ محمد اقبال، ابواثر حفیظ جالندھری ( قومی ترانے کے خالق) اشفاق احمد، مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی اور دیگر قومی شخصیات، اسی طرح قصور شہر کی طرف داخلی راستے کی پیشانی پر قومی شخصیات کے پورٹریٹ لگائے جائیں اور دروازے بنائیں جائیں۔
3۔ شاہدرہ ،سگیاں سے دریائے راوی کے پلوں کی تزئین و آرائش کی جائے، ان پلوں سے گاڑیوں کے گزارنے سے پہلے ٹال پلازے ختم کر دیئے گئے ہیں جبکہ عمارتوں کا سڑکچرموجود ہ ہے۔
4۔ دریائے راوی پر شاہدرہ، سگیاں، موٹروے، ریلوے پل تک دریا کے کناروں پر جنگل لگایا جائے، اگر مصنوعی جھیل بنا دی جائے، تواس میں کشتی رانی بھی ہو سکتی ہے اور آلودگی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
5۔ رنگ روڈ کی سروس روڈ کے ساتھ شجر کاری کی جائے۔
6۔ مال روڈ پر اونٹ گاڑی بچوں، خواتین کی تفریحی کے لیے چلائی جائے۔ تجویز ہے کہ مال روڈ کے علاوہ مین بلیوارڈ پر گھوڑوں کی ’’بگھی‘‘ بھی چلائی جائے۔ ٹانگہ بگھی لاہور کی ثقافت کا حصہ ہے۔
7 ۔ تجاوزات نے لاہور کے حسن کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ لاہور میں مال روڈ ہی واحد روڈ ہے، جس کے فٹ پاتھ تجاوزات سے پاک ہیں۔ جیل روڈ بھی کسی حد تک فٹ پاتھوں پر تجاوزات سے پاک ہے۔ اس ضمن میں گزارش ہے کہ لاہور شہر کے تمام فٹ پاتھ پر تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ پورے لاہور کی مارکیٹوں، پلازوں کے مالکان، تاجر تنظیموں کے عہدیداروں کا اجلاس بلاکر انہیں باور کروایا جائے کہ فٹ پاتھ آپ کے نہیں، پبلک کی ملکیت ہیں۔
8۔ مینار پاکستان پر ہر ہفتے دنگل، کبڈی، شوٹنگ والی بالز کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جائے۔
9۔ گلِ داوری کا مقابلہ ریس کوریس ہر سال منعقد ہوتا ہے، لیکن لاہور میں PHA نے بہت سارے پارکس بنائے ہیں اور خاص کر DHA، ماڈل ٹائون اور دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بھی گلِ داودی کی نمائشیں منعقد کی جائے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس صحت مند خوشنما پھول کے حوالے سے یونیورسٹیوں اور پارک انتظامیہ کے درمیان مقابلے کروائے جائیں۔ ان مقابلوں میں ضلعی انتظامیہ کے افسران، ریٹائرڈ ججز، بیوروکریٹس، صحافیوں، سماجی افراد کا پینل بنایا جائے تاکہ معاشرے میں گلِ داودی کا ذوق شوق پیداہو۔
10۔ رنگ روڈ،پر نیازی چوک سے شیراکوٹ تک ایک طرف کی سائیڈ وال اونچی کر دی جائے اور اس کے اوپر وائر تار لگائی جائے کیونکہ اس علاقے میں آبادی کا سڑک کے آر پار فلو بہت زیادہ ہے اوور ہیڈ برج بھی موجود ہیں، لیکن لوگ اوور ہیڈ کو استعمال کرنے کی بجائے سڑک کی سائیڈ والی جو 3 فٹ اونچائی پر مشتمل ہے، اس کو بآسانی عبور کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تیز ٹریفک کے بہاو میں خلل اور آئے روز ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، نیازی چوک سے محمود بوٹی تک اور اس سے آگے سائیڈوال کو ایک طرف سے اونچا کرنے سے ٹریفک کے بہاؤ میں کوئی خلل نہیں آ رہا اور سڑک سفر کے لیے محفوظ اور ڈسپلن نظر آتا ہے ۔
11۔ مینار پاکستان فلائی اوور کے درمیان گھنٹہ گھر تعمیر کیا جائے۔
12۔ لیڈی و لنگڈن ہسپتال، ڈی سی او آفس لاہور، پی ایم جی پوسٹ ماسٹر جنرل بلڈنگ، گورنمٹ کالج یونیورسٹی کی بلڈنگ کو بھی مال روڈ کی طرز پر روشن کیا جائے۔
13 ۔ سٹی ڈسٹرک گورنمنٹ کے مین گیٹ کے ساتھ نصب پاک فضائیہ کے شاہین صفت اسکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم کے زیر استعمال سیبر طیارے کی مزید تزئین وآرائش کے ساتھ ان کا پورٹریٹ، سوانح عمری اوران کے کارناموں پر مبنی بورڈ آویزاں کیا جائے ۔
14۔ لاہور شہر کے درمیان سے گزرنے والی نہر میں مختلف نسل کے آبی پرندوں کوچھوڑا جائے۔ نہر کے کنارے ان کے Huts بنائے جائیں تاکہ نہر میں مزید خوبصورت ماحول پیدا ہو۔
15۔ جیل روڈ سگنل فری ہوچکی ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے اور انجینئرنگ کا شاندار شاہکار ہے۔ اس ضمن میں اس روڈ پر اپوا کالج اور لاہور کالج یونیورسٹی ہے۔ یونیورسٹی آمد اور چھٹی کے وقت دونوں اطراف میں گاڑیاں ،موٹر سائیکل اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کھڑی ہوتی ہے۔ درمیان میں گرین بیلٹ پر آہنی جنگلہ نہ ہونے سے طالبات کی آمدروفت جاری رہتی ہے، جس سے ٹریفک کی روانی میں پہلے خلل پڑتا تھااور اب سنگل فری روڈ ہونے سے گاڑیوں کی سپیڈ میں اضافے سے حادثات پیش آسکتے ہیں اور ٹریفک میں روانی میں خلل پڑنے سے اس منصوبے کی افادیت پر منفی اثرپڑے گا، لہٰذا دونوں تعلیمی اداروں کی بائونڈری تا بائونڈری تک سڑک کے درمیان گرین بیلٹ پر جنگلہ لگا دیا جائے اور طالبات پہلے سے نسب اوور ہیڈ برج کو سٹرک کے آرپار جانے کے لیے استعمال کریں۔
16۔ جلو موڑ کے مقام جہاں سے لنک نہر نکلتی ہے، جو شہر کے وسط سے گزر کر مانگا منڈی جاکر ختم ہوتی ہے ۔ ایک تو دھرم پورہ سے ٹھوکر تک تو الحمداللہ بہت خوبصورت ماحول ہے ، لیکن دھرم پورہ سے جلوتک دونوں اطراف میں شجر کاری پارکوں کی ضرورت ہے ۔
17۔ فیروز پور روڈ، جیل روڈ کی طرح کینال روڈ کو بھی سگنل فری بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے، تو لاہور میں ٹریفک کی روانی کا 60 فیصد مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہر انڈر پاس کے آگے پیچھے یعنی مشرق مغرب کی جانب ڈیڑھ کلومیڑ کے فاصلے پر پل بنا دئیے جائیں، تو جلو سے ٹھوکر تک کینال روڈ،فیروز پور، مال روڈ، جیل روڈ اور دیگر روڈ جو کینال روڈ کو ٹچ کرتی ہیں پر متواتر ٹریفک چلنے سے ٹریفک جا م کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
فرحان شوکت ہنجرا
فرحان شوکت ہنجرا
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments