سرسیّد احمد خاں لاہورتشریف لاتے ہیں محسن ملت سرسیّد احمد خاں اپنے دورۂ پنجاب کے دوران30 جنوری 1884ء کوامرتسرسے بذریعہ ریل لاہورپہنچے۔لاہورریلوے سٹیشن پراُن کااور وفدکاپُرتپاک استقبال کیا گیا۔ پلیٹ فارم پاراستقبال کے لیے سرخ قالین بچھا تھا۔ سرسیّد جب پلیٹ فارم پراترے، تو خان بہادر برکت علی خاں نے انہیں اوران کے ساتھیوں کو گلدستے پیش کیے ، جومعززین اس وقت استقبال کے لیے وہاں موجودتھے۔ ان میں نواب عبدالحمید خاں، سرداردیال سنگھ ،دیوان پنڈت ہرندر ناتھ، ڈاکٹر رحیم خاں، پیرزادہ مولوی محمدحسین ایم اے، آنریری مجسٹریٹ شیخ سندھے، سیّدرمضان، مولوی سیّد ممتاز علی اور ڈاکٹر امیرشاہ نمایاں تھے۔
انگریزجوڈیشل اسسٹنٹ کمشنر اوررجسٹرار پنجاب یونیورسٹی بھی ریلوے سٹیشن پر سرسیّدسے ملاقات کے لیے خصوصی طورپر موجود تھے۔ مجلس اسلامیہ لاہورنے سرسیّد کی آمداوراُن کے لاہورمیں قیام کا پورا پروگرام چھاپ کر تقسیم کیاتھا۔ لوگوں کاایک بڑاہجوم سرسیّدکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سٹیشن پر اُمڈآیاتھا۔ ترکی لباس اورسرخ ترکی ٹوپی میں ملبوس نوجوانوں کاایک دستہ سرسیّد کے خاص باڈی گارڈز کے طورپر متعین تھا۔ ریلوے سٹیشن پرسواری کے لیے گاڑیاں موجود تھیں۔ سرسیّد کے ساتھ نواب عبدالحمید خاں گاڑی میں سوار ہوئے۔ سٹیشن کے باہر سکولوں کے طلبہ بڑی تعدادمیں سرسیّد کوخوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ پنجاب کے دیگرعلاقوں سے بھی ممتاز شخصیات سرسیّدسے ملاقات کے لیے لاہور پہنچی تھیں۔ سرسیّد شام پانچ بجے انارکلی میں واقع مہارا جاکپورتھلہ کی کوٹھی میں پہنچے ،جہاں اُن کا قیام تھا۔ لوگوں کی ٹولیاں سرسیّد سے ملنے کے لیے آرہی تھیں اوروہ سب کا کھڑے ہوکراستقبال کرتے اور فرداً فرداً ہاتھ ملاتے۔ وہ آدھی رات تک ملاقاتیوں سے ملتے رہتے تھے۔
سرسیّداحمدخاں لاہورمیں چاردن بیحد مصروف گزارے۔ ہرروزاُن کے اعزاز میں مختلف شخصیات اوراداروں کی جانب سے تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا اور ہرمذہب کے زعماء ملنے آتے رہے۔ سرسیّد 4 فروری کی صبح دس بجے لاہورسے جالندھرکے لیے روانہ ہوگئے۔ خراب موسم اورسرسیّدکی روانگی کے پروگرام کی زیادہ تشہیر نہ ہونے کے باوجود لاہوریوں کی معقول تعداد انہیں رخصت کرنے کے لیے ریلوے سٹیشن پر موجو د تھی۔ (سیّداحمدخاں کاسفرنامہ ٔ پنجاب) اکبری دروازے کی دوبارہ تعمیر کی گئی مغل دور میں دہلی دروازے سے موچی دروازے کے درمیان ایک غلہ منڈی بنائی گئی، جسے اکبری منڈی کا نام دیا گیا۔ شروع میں باقی دروازوں کی طرح یہاں بھی دروازہ موجودتھا،جو بعدمیں گرا دیا گیا۔ اس کی جگہ 1886ء میں انگریزوں نے یہاں نیا دروازہ تعمیرکرایا،جس کانام ’’ایچی سن گیٹ‘‘ رکھا گیا۔
علاوہ ازیں غلہ منڈی کو’’ایچی سن گنج‘‘ نام دیا گیا،تا ہم عوام میں یہ دونوں نام مقبول نہ ہوسکے اور یہ جگہ اب بھی اکبری دروازہ ہی کہلاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہاں انگریز دور میں بننے والا ’’ایچی سن گیٹ‘‘ اب بھی ختم ہوچکا ہے۔ لاہورمیں پہلی صنعتی نمائش کااہتمام کیا گیا انگریز حکومت نے شہریوں کی دلچسپی اور معلومات کے لیے مال روڈکی تاریخی ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارت میں20 جنوری 1864ء کو صنعتی نمائش (پنجاب ایگز ی بیشن) کا انعقاد کیا۔ نمائش کا مقصد پنجاب کی قدرتی پیداوار ، صناعی اور ہنر مندی کے اعلیٰ اور حسین نمونے پیش کرکے لوگوں کو دعوت نظارہ دینا تھا۔ نمائش پر مقامی ، صوبائی اور مرکزی حکومت کا ہزاروں روپیہ صرف ہوا۔ نمائش میں اس اعلیٰ معیارکی اشیاء رکھی گئی تھیں۔
ان میں ریاستوں کے رئیسوں، امیروں، سرداروں اور جاگیر داروں کی جانب سے بھیجی گئی طرح طرح کی عجیب وغریب چیزوں کے علاوہ زیورات ، ملبوسات ، قالین، خوشنویسوں کے ہاتھ کی لکھی کتابیں، قطعات، مشہور مصوروں کی مصوری اور نقاشی کے نمونے ،ہر قسم کے اناج، ادویات ، جڑی بوٹیاں، اوزار، ہتھیار، ہاتھی دانت کی بنی اشیاء ، قسم قسم کے پتھراور حنوط شدہ پرندے، جانور، حشرات اوردوسری چیزیں شیشے کے بکسوں میں رکھی گئی تھیں۔ نمائش اپریل کے پہلے ہفتے تک جاری رہنا تھی، مگر عوام کی پسندیدگی اوربے پناہ دلچسپی کودیکھتے ہوئے اس کی مدت میں توسیع کردی گئی۔ اس کے باوجود عوام کی نمائش سے دلچسپی ختم ہونے کانام ہی نہ لیتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ہرروزایک ہزارسے زائد لوگ مسلسل نمائش دیکھنے آتے رہے۔ حکومت نے نمائش کی کامیابی کودیکھتے ہوئے ان اشیاء کو مستقل طورپر یہاں رکھ دیا اور آہستہ آہستہ قدیم مجسمے اور دیگرنوادرات بھی فراہم ہونے لگے اوریہ ایک مکمل عجائب خانہ بن گیا۔
( محمدنعیم مرتضیٰ کی مرتب کردہ تصنیف ’’واقعاتِ لاہور‘‘ سے مقتبس)
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments