لاہور میں موسلادھار بارش ہوئی اور پورا شہر پانی پانی ہو گیا، دلچسپ جواب تو
رکن پنجاب اسمبلی وحید گل کا تھا، کہنے لگے بارش ہو گی تو سڑکوں پر پانی ہی ہو گا، پانی کے سوا اور کیا ہو گا۔ یار وں نے طنز کے تیر برسانے شروع کئے کہ کسی نے اسے وینس بنایا اور کسی نے پیرس، ایسے میں حمزہ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق نے سوشل میڈیا پر وہ تصویریں شئیر کر دیں جن میں دنیا بھرمیں مشہور ایفل ٹاور پانی میں ڈوبا ہوا تھا، مجھے پھر وحید گل یاد آ گئے کہ جب بارش ہو گی تو پھر پانی ہو گا اور جب بہت زیادہ بارش ہو گی تو بہت زیادہ پانی ہو گا۔ تصویریں تو جاپان اور چین کی بھی بہت ساری ہیں جن کے مختلف شہر زیادہ بارش کی وجہ سے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کچھ تصویریں تو امریکہ کی ایک دو ریاستوں کی بھی دیکھی ہیں۔
مثالیت پسندوں کا جواب ہے کہ امریکہ ، جاپان، فرانس اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کے شہر بارش میں پانی میں ڈوبے ہوں تو بھی یہ لاہور کے ڈوبنے کاجواز نہیں بن سکتے، کسی ایک کرپشن اور نااہلی کے جواب میں کسی دوسری کرپشن اور نااہلی کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات صرف اپنے چوروں ، قاتلوں کو تحفظ دینے کے لئے ہے کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کبھی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو مگر دوسری طرف بہرحال اس موقف میں وزن ہے کہ اگر ان ممالک کے شہریوں کو پانی میں ڈوبنا پڑ سکتا ہے جو طویل عرصے سے اپنی آمدنیوں کا بہت بڑا حصہ بطور ٹیکس ایسی حکومتوں کو ادا کر رہے ہیں، جو ان کی نمائندہ اور انہی کو جوابدہ ہیں، ان کی فلاح وبہبود ہی ان کا اولین ایجنڈا ہے جبکہ ہمارے ہاں تو غریب آدمی کو بھی فکری مغالطے پیدا کر کے ان حکومتوں کا مدح سرا بنایا جاتا رہا ہے جو امیروں اور طاقتوروں کی ہوتی ہیں، امیروں اور طاقتوروں کے لئے ہی کام کرتی ہیں اور پھر یہی ہوتا ہے کہ امیروں اور طاقتوروں کے علاقے بہت زیادہ خوبصورت اور بہت زیادہ ترقی یافتہ بن جاتے ہیں اور ایسے میں ہم جیسے عام لوگ جب ان جزیروں پر جاتے ہیں تو کہتے ہیں، وہ جگہ تو پاکستان لگتی ہی نہیں۔
فارمولا بہت سادہ ہے، ہمارے شہر کے سیوریج سسٹم میں بارشی پانی کے نکاس کی ایک گنجائش ہے اور یقینی طور پر اس گنجائش کو بہت زیادہ بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ بارش ہونے پر میڈیا لاہور کے جن علاقوں پر چڑھ دوڑتاہے ان میں سب سے مشہور لاہور کا لکشمی چوک ہے۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ہی دیکھا کہ اسی لکشمی چوک میں بارش ہونے کے بعد دو، دو دن تک پانی کھڑا رہتا تھا، دیال سنگھ کالج کے لڑکے بالے کالج کی پچھلی طرف کی دیوار پھلانگ کر گھر کی راہ لیا کرتے تھے مگر اب شدید بارش کے بعد بھی وہاں سے دو سے تین گھنٹوں میں پانی اتر جاتا ہے مگر اس کے باوجود بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں گھنٹوں پانی کھڑا رہتا ہے، میں گھنٹوں کی بات کر رہا ہوں دنوں کی نہیں، اب سوال یہ ہے کہ ایک برس کے دوران لاہور میں ایک سے دومہینے ایسے گزرتے ہیں جب بارشیں ہوتی ہیں، لاہور کے واسا کو تھوڑی بہت ہوتی ہوئی بارش کچھ نہیں کہتی چاہے وہ دو، تین دن مسلسل ہوتی رہے مگر وہ موسلادھار بارش جان نکال لیتی ہے جس میں پانی آسمان سے الٹایا جا رہا ہوتا ہے ، بارشوں کے ایک سے دو مہینو ں میں پانچ سے سات دن ایسے ہوتے ہیں جب چھاجوں مینہ برستا ہے۔ عقل کی بات ہے کہ آپ کے پاس ایک پائپ ہے جس میں سے پانی گزرنے کی ایک گنجایش اور ایک صلاحیت ہے جونہی پانی اس گنجائش اور صلاحیت سے زیادہ ہو گا وہ رکنا شروع ہوجائے گا اور اس وقت تک پائپ سے باہر جمع ہوتا رہے گا جب تک بارش ہوتی رہے، جیسے ہی مزید پانی نازل ہونا بند ہو گا، پہلے سے جمع شدہ پانی نکلنا شرو ع ہوجائے گا۔ میرے خیال میں اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سائنس کے مضمون میں کسی ڈگری کی ضرورت نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس پائپ کی صلاحیت اور گنجائش کو کیوں نہیں بڑھایا جاتا۔ جب ہم بارشی پانی کے نکاس کے مکمل نظام کی بات کرتے ہیں توسڑکوں اور گلیوں میں دبے ہوئے پائپ ہی نہیں بلکہ ان کے آگے ڈسپوزل اسٹیشن بھی ہوتے ہیں۔ لاہور میں واسا کا نظام آدھے یا اس سے تھوڑے ہی زیادہ حصے کے لئے ہے باقی مقامات سے پانی کا نکاس ہاوسنگ سوسائٹیوں کی ذمہ داری ہے اور واسا ان سے اپنے نظام سے منسلک ہونے کے لئے پیسے مانگتا ہے، ہاں، ماضی کی کوتاہی یہ رہی کہ بہت ساری ہاوسنگ سوسائٹیاں بنیں مگر انہوں نے واسا سے اپنے اپنے علاقے کو کنکٹ ہی نہیں کیا،جیسے ملتان روڈ پر ایک علاقہ اعظم گارڈن بہت مشہور ہوا، مالکان پلاٹ بنا اور بیچ کر چلے گئے اور جب بارش ہوئی تو اعظم گارڈن میں کشتیاں چلانے کی نوبت آ گئی۔ لاہور میں اس وقت بھی ایسا نظام لایا جا سکتا ہے، جس میں بیشتر مقامات پر موسلادھار بارش کے باوجود پانی کھڑا نہ ہو مگر ماہرین کہتے ہیں کہ اس کے لئے ساٹھ سے اسی ارب روپے درکار ہیں۔ اس سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ جب ہم میٹرو پر اربوں لگا سکتے ہیں تو سیوریج پر کیوں نہیں اور اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ جب پبلک ٹرانسپورٹ پر اربوں روپے لگتے ہیں تو وہ سسٹم روزانہ اٹھارہ گھنٹے لاہوریوں کے لئے کام کرتا ہے مگر یہ اربوں روپوں کی رقم اس سسٹم کے لئے لگے گی جو پورے سال میں صرف پانچ، سات یا دس دن چند ، چند گھنٹوں کے لئے کام کرے گا۔
ہمیں نکاسی کے حوالے سے شہر کے ماسٹر پلان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام رہائشی سوسائٹیوں کو واسا کے ساتھ کنکٹ کرنے کی ضرورت ہے جو ابھی تک اپنا پانی ادھر ، ادھر پھینک رہی ہیں۔ حاجی کیمپ، ریلوے اسٹیشن کے قریب سے شروع ہونے والا ڈرین کا پراجیکٹ بھی شہر کے بہت سارے علاقوں کے مسائل حل کرے گا۔ بہت سارے علاقے ایسے ہیں جن کا سیوریج سسٹم اقتدار کے ایوانوں سے آنے والے ڈائریکٹوز پر بہتر ہو گیا مگر اس کے آگے ان کو مین لائن سے منسلک ہی نہیں کیا گیا۔ گلبرگ میں سنٹر پوائنٹ اور کلمہ چوک کی ڈرین آگے سے کنکٹ ہی نہیں ہے اورسب اسے ڈال کر بھول چکے ہیں ۔ انتظامیہ کو ان دو قسم کے علاقوں کی طرف خصوصی توجہ دینی ہو گی ،پہلے وہ جہاں بارش ہونے کے بعد اب بھی دو ، دو دن تک پانی کھڑا رہتا ہے ،اس میں اچھرہ کے علاقے کی سلطان احمد روڈ اورملحقہ سڑکیں بھی شامل ہیں اور دوسرے علاقے وہ ہیں جہاں گھروں کے اندر پانی داخل ہوجاتا ہے۔
پھر وحید گل کی بات کروں گا کہ جب بارش ہو گی تو سڑکوں پر پانی ہی آئے گا اور اسی طرح آئے گا جس طرح دنیا کے ان ملکوں میں آتا ہے جہاں کے لوگ ہم سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور جن کے پاس ہم سے کہیں زیادہ جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ میں نے واسا کے عملے کو بھری بارش میں بھی کام کرتے دیکھا ہے ۔حکومت سے تو شکایت کی جاسکتی ہے مگر قدرت سے کیا شکایت کی جائے، موسلادھار بارش ایک طرف تو امیروں کے سنگ مرمر سے بنے گھروں کو دھو کر نکھار دیتی ہے، ان کے لان میں لگے درختوں کے پتے نہانے کے بعد چلتی ہوا میں تالیاں بجانے لگتے ہیں تو وہی بارش غریبوں کے خستہ گھروں کی چھتیں گرا دیتی ہے اور پھربہت ساری جگہوں پر بارش تو رک جاتی ہے مگرآنکھوں سے برسنے والا ساون نہیں.
نجم ولی خان
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments