Lahore

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

ایک بار پھر وہی لاہور

میں شکرگزار ہوں اپنے اس خوش ذوق شفٹ انچارج کا جس نے ایک سرکاری خبر کو سچ مچ کی خبر بنا دیا، اس میں رنگ بھر دیا اور اسے لاہوریوں کے دلوں میں اتار دیا۔ معلوم ہوا کہ لاہور کو سرسبز اور درختوں سے آراستہ کرنے والے محکمہ نے سرگرم ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لاہور سے روٹھ جانے والے پرندوں کو واپس لایا جائے۔

کبھی اس شہر کے باغوں میں کوئل کُوکتی تھی اور رات کے وقت طوطوں کے جھنڈ درختوں پر دکھائی دیتے تھے لیکن اب یہ کچھ بھی نہیں رہا۔ کوئل اور طوطے اس شہر سے روٹھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ شہر لاہور کی ان درختوں سے محرومی ہے۔ اب اس شہر کے باغات کا محکمہ وہ درخت لگا رہا ہے جو ان پرندوں کو پسند تھے اور جن کے نہ ہونے سے وہ روٹھ گئے ہیں۔ کئی درخت اس شہر کی پہچان اور پرندوں کے ٹھکانے تھے جیسے شہتوت اور دریک پرندوں کو بہت مرغوب تھے۔ لاہور کو پھر سے باغوں اور پرندوں کا شہر بنایا جا رہا ہے۔
لاہور شہر اپنے کالجوں اور باغوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کی یہ کلاسیکی شہرت لوٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت سے ایک مشہور اداکارہ لاہور آئی تو وہ اس شہر کے سرسبز و شاداب ہونے کے گن گاتے لوٹ گئی جب کہ اس نے شاید وہ لاہور نہیں دیکھا تھا جو باغوں کا شہر تھا اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آیا کرتے تھے۔
یہی وہ لاہور تھا جس کے بارے میں اس شہر کے منظر اور گوناگوں نظاروں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا، اور میرے جیسے مصنوعی لاہوری جب اس شہر بے مثال میں آئے تو پھر جتنی زندگی بھی تھی وہ یہیں گزار دی کہ ملکہ عالم نور جہاں کے بقول جان دے کر اس جنت کو خریدا گیا تھا۔ کتابوں میں ملتا ہے کہ لاہور کو آراستہ کرنے میں کچھ بڑے لوگوں نے بے حد محنت کی۔ پنجاب کے گورنر سر ریواز اور معروف انجینئر سر گنگارام لاہور کی گرم دوپہروں کو فیتہ لے کر مال روڈ پر دکھائی دیتے تھے جو یہاں کاشت کیے جانے والے درختوں کے درمیان کا فاصلہ ناپتے تھے۔

عین ممکن ہے کوئی درخت اب بھی زندہ ہو اور اپنے مہربانوں کو یاد کرتا ہو۔ اب مدتوں بعد لاہور کے کسی گورنر یا انجینئر کو نہیں، سرکاری ملازموں کو یہ احساس ہوا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا یہ شہر ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے چنانچہ انھوں نے یہاں کے روٹھے پرندوں کو منانے کے لیے ان کی پسند کے درخت لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ان کا یہ نیک ارادہ محض خبر نہیں تو ان کا یہ لاہور پر ایک احسان ہو گا اور لاہور پھر سے باغوں کا شہر بن جائے گا۔

لاہور کی آب و ہوا ہر قسم اور نسل کے درختوں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہاں آپ نے کبھی مرجھایا ہوا درخت نہیں دیکھا ہو گا اور کسی بچے نے بھی کوئی درخت کاشت کر دیا تو وہ نشو و نما پا گیا کیونکہ یہ شہر اور اس کی زمین کسی کو مسترد نہیں کرتی۔ کوئی بھی کہیں سے آ کر یہاں بس جائے خواہ وہ کسی بھی سرزمین سے آیا ہو اور کسی بھی رنگ و نسل کا ہو، یہ شہر بے مثال اسے قبول کر لیتا ہے۔ یہاں تو غیرملکی باشندے بھی پرورش پا گئے اور ملکی تو اس شہر کے خوبصورت ماحول میں مکمل رچ بس گئے۔ خواہ وہ سیالکوٹ کا اقبال ہو یا ذرا پرے کا فیض احمد فیض۔

لاہور میں نہ صرف شعر و سخن کے استاد اور نامور لوگ آباد ہو گئے بلکہ یہاں اس شہر میں کتنی ہی سیاسی جماعتیں پیدا ہوئیں، پروان چڑھیں اور چھا گئیں۔ جماعت اسلامی اسی شہر کی پیداوار ہے جس کا نام تو کسی دوسرے شہر سے تھا لیکن مولانا اسے وہاں سے لاہور لے آئے کیونکہ ان کے خیال میں سیاسی شہر لاہور ہی تھا پھر یہی شہر اس جماعت کا مرکز بن گیا اور کتنی ہی سیاسی اور دینی جماعتیں ہیں جو اس شہر میں پھلی پھولیں اور تعجب ہے کہ کتنے ہی صوفی اس شہر کو پسند کر کے اس میں آباد ہو گئے اور یہاں ان کا فیض جاری ہو گیا۔ ان کے دربار اور ان کے مزار مرجع خلائق ہیں اور دن رات ہزاروں افراد ان سے روشنی کی تلاش کرتے ہیں۔

حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ تو اس شہر کا دوسرا بابرکت نام ہی بن گئے ہیں۔ حضرت کسی دوسرے شہر کے مکین اور شہری تھے لیکن مرشد نے انھیں یہاں بھیج دیا اور خلق خدا کی ہدایت کے لیے اس شہر کو پسند کیا۔ ہندوستان کے کتنے ہی صوفی حضرت داتا صاحبؒ سے فیض پا کر اپنے اپنے حلقوں میں پھیل گئے اور ’’ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے یہاں سے رخصت ہوئے۔ لاہور کا یہ اعزاز جو قدرت نے اسے عطا کیا ہے اس سے کون چھین سکتا ہے۔

بات تو میں کچھ اور کرنا چاہتا تھا لیکن لاہور کی خوبیاں کسی طرف جانے ہی نہیں دیتیں۔ شعر و موسیقی میں بھی یہ شہر بلند مقام رکھتا ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان جو قصور کے تھے، وہاں سے اسی شہر میں منتقل ہو گئے اور پھر یہیں سے اپنی موسیقی کی مفتوحہ سلطنت ہندوستان چلے گئے۔ فن کے ایک شعبے فلم کا ذکر کریں تو بمبئی سے پہلے لاہور فلموں کا مرکز تھا اور کئی فلمی فنکار اس شہر کی پیداوار ہیں۔

نورجہاں کا جواب اب تک تلاش نہیں کیا جا سکا جو بڑے غلام علی خان صاحب کی طرح تھی تو قصور کی لیکن لاہور چلی آئی اور پھر یہاں سے پورے ہندوستان پر چھا گئی۔ یہ بھی لاہور کی برکت تھی اور کتنے ہی فنکار ہیں جو خاک میں مل گئے لیکن لاہور کی سرزمین کو آباد کر گئے۔ لاہور شہر کے تعلیمی ادارے دور دور تک مشہور تھے اور کئی دینی تعلیمی ادارے اب تک مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست کا ذکر میں کر چکا ہوں اور اس کی وجہ سے لاہور کو ایک سیاسی شہر کہا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ جس کی سیاسی جماعت اور کھانے والا ہوٹل لاہور میں نہیں چلا وہ کہیں نہیں چل سکتا۔
 
عبدالقادر حسن 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments