موسم میں تبدیلی کے آثار توکئی روز سے تھے لیکن گزشتہ روز صبح کے وقت آسمان پر بادل اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، بعدازاں تبدیلی ہوئی اور دھوپ نکل آنے کے باعث کچھ تلخی ہو گئی اور مغرب کے وقت حبس بھی محسوس ہوا ہے، لیکن آج (بدھ) صورت حال بہت مختلف تھی۔ سیر کو نکلے تو بہت بھینی ٹھنڈی ہوا نے فرحت بخشی اور آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، سیر کرتے ہوئے کچھ ایسی کیفیت تھی کہ ایک آدھ چکر زیادہ ہی لگ گیا اور پھر جب محفل جمی تو پارک میں بھی گرمی کا شائبہ نہ تھا اور ٹھنڈی ہوا کے مزے تھے۔ بعدازاں بادل زیادہ گہرے ہوئے اور برسے بھی!
لاہور کا ایسا موسم طویل عرصہ بعد دیکھا اور محسوس ہوا کہ ساون شروع ہو گیا ہے، حالانکہ یہ دیسی حوالے سے چیت (چیتر) کا مہینہ ہے اور ابھی ساون کہیں دور ہے، لیکن قدرتی طور پر بدلتے ماحول اور موسموں نے کیفیت بھی تبدیل کر دی۔یہی وہ موسم ہے جسے دیکھ کر اور محسوس کرکے ہمارے دوست کہتے ہیں۔ موسم خوشگوار ہو گیا، لاہوریوں نے پارکوں کا رخ کر لیا، لیکن یہ تو دن کا وقت تھا اور شہری کام کاج اور بچے سکولوں کالجوں کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ ہمیں تو یہ موسم کئی سال پیچھے لے گیا جب موسمیاتی تغیر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اور گرمی،ساون، سردی اور بہار وقت پر آتے تھے اور ساون تو حقیقتاً ایسا ہوتا کہ جھولے پڑ ہی جاتے تھے بابر نے بھی تو ساون ہی کو پسند کرکے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور واپسی کا ارادہ ترک کر دیا تھا، یوں برصغیر میں مغلیہ دور کی بنیاد رکھی گئی۔
ہمیں تو یہ موسم ماضی میں لے گیا، جب لاہور واقعی لاہور تھا، یہ اتنا گنجان اور تنگ نہیں تھا، ساون آتا تو آم کا موسم ہوتا تھا، بادل گھر کر آتے ایسی ہی ٹھنڈی اور بھینی ہوا چلتی جیسی آج تھی، دل مچل مچل جاتے ۔ ہم لڑکے بالے گھروں سے نکل کر میاں میر نہر کے پل پر جاتے اور خوب نہاتے تھے۔ شالیمار باغ اور مقبرہ جہانگیر میں داخلہ ٹکٹ نہیں تھا۔ گروپ بنتے اور ان تاریخی مقامات کا رخ کیا جاتا، جہاں کھانے پینے اور آم چوسنے کے علاوہ بھاگ دوڑ اور کھیل بھی ہوتے تھے اور پھر ہمارے شہر (اندرون شہر اب کہتے ہیں) کے اردگرد کے سرکلر باغات بھی تو قبضہ گروپوں کے ہاتھوں میں نہیں گئے تھے یہ سرسبز اور کھلے تھے۔ یہاں بھی کبڈی، گلی ڈنڈا اور کرکٹ سے دل بہلایا جاتا، پھر بارش ہوتی تو نہاتے تھے کہ اس سے پہلے گرمی کے باعث نکلنے والے گرمی دانوں کا علاج بھی بارش میں نہانا تھا نہ تو دس جراثیموں اور نہ ہی ان کو ختم کرنے والے صابن کا رواج تھا، روائت یہ تھی کہ بارش میں نہاؤ اور صحت یاب ہو جاؤ۔
یہ ساون ہی کا موسم ہوتا تھا، جب گھروں میں پکوڑے بنائے جاتے اور سب مل کر گرم گرم اور تازے تازے کھاتے تھے۔ گھروں میں سالن کے بارے میں پوچھا جاتا تو کئی آوازیں بیک وقت آتیں، قیمہ اور پھر بازار سے بکرے کا قیمہ لا کر مختلف مختلف انداز اور طریقوں سے پکایا اور کھایا جاتا تھا۔ تب جمعرات کو بادل برستے تو کہا جاتا جمعرات کی جھڑی ہے، سات روز تو چلے گی۔ یقین مانئے ایسی تمام روایات پوری ہوتی تھیں اور واقعی ایک ایک ہفتہ بادل رہتے اور بارش ہوتی تھی، آج تو حالات ہی مختلف ہیں۔ مقبرہ جہانگیر اور شالیمار باغ میں داخلے کے لئے ٹکٹ ہے۔ اندر کھانے پینے کی ممانعت اور صرف وہاں موجود مہنگی اور غیر معیاری کینٹین ہے۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اب مقبرہ جہانگیر اور شالیمار باغ جانا بھی ایک مرحلہ ہے کہ تجاوزات نے راستے محدود کر دیئے ہوئے ہیں۔ خصوصاً مقبرہ جہانگیر کے لئے تو راستہ تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ راوی پل سے گزر جائیں تو اگلے (شاہدرہ چوک) میں ہر قسم کی ٹریفک سے واسطہ پڑتا اور پھر یہاں سے بھی راستہ نہیں ملتا، یوں بھی محکمہ سیاحت والوں کی مہربانی سے ان تاریخی عمارتوں کی حالت بھی ’’قابل رشک‘‘ ہے کہ جاری مرمت نظر آتی ہے کام مکمل نہیں ہو پاتا، اسی طرح درختوں میں اضافے اور پھول پھلواری کی جگہ خالی خالی نظر آتی ہے، شالیمار باغ کے تختہ دوم اور سوم کی تو شاید دیکھ بھال بھی نہیں ہوتی، یہاں ایک طرف گرم حمام تھا وہ توڑپھوڑ کر برباد کر دیاگیا۔ شالیمار باغ کے لئے پانی کا اپنا نظام تھا جو مرکزی گیٹ کے سامنے عنایت باغ سے آتا تھا اب وہاں نہ وہ باغ ہے اور نہ ہی پانی والا نظام، جو چاہیں کر لیں، محکموں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
ابتداء میں ذکر کیا تھا، نہر میں نہانے کا تو ان دنوں یہ نہر بہت صاف پانی والی تھی۔ اس کی گہرائی بھی تھی اور یہ مسلسل بہتی تھی۔ میاں میر (دھرم پورہ والا) پل ایک تفریح گاہ تھی جہاں ہم لڑکے شہر سے اکٹھا ہو کر جاتے تھے۔ آج یہ سب خواب لگتا ہے۔ نہر آلودہ ہے ، اس میں سیوریج ڈال دیئے گئے ہیں۔ بھل صفائی کے نام پر گہرائی کم کی جا رہی ہے، اس دور کی گرمیاں سخت ضرور ہوتی تھیں لیکن باغات اور گھنے سایہ دار درخت پناہ دیتے، ایئر کنڈیشنر کا تو ذکر ہی نہیں تھا۔ آج یہ سب سوچتے اور لکھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ کیا کبھی ’’ریاستی رٹ‘‘ میرے شہر کی ہیئت کو بحال کر دے گی۔
والڈ سٹی اتھارٹی کو بھی شہر کی تنگی، گنجان ہونا اور سرکلر باغات کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔ تجاوز کرنے والے موج کر رہے ہیں اور اتھارٹی والے گرانٹ استعمال کرنے کے علاوہ شہر میں بلڈنگ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پورا شہر مارکیٹ بن چکا، اس کا کوئی حل ہے؟ اب تو شہر گئے بھی عرصہ ہی ہو گیا کہ حوصلہ نہیں ہوتا، یوں بھی آج کے دور کی روائت میں برگر اور شوارما ہیں، یہاں گھر کے پکوڑوں اور ’’کڑی‘‘ کی گنجائش کہاں ، گرمی سے بچاؤ کے لئے ائرکنڈیشنر بجلی مہنگی تر اور پھر یہ ہے کہاں؟ یہاں تو لوڈشیڈنگ بُرا حال کر دیتی ہے، آج کے موسم نے پنکھے کی ہوا بھی ٹھنڈی کر دی لیکن لوڈشیڈنگ بدمزہ کرتی رہی، یہ جو یاد ماضی اور مسائل کا ذکر ہے تو دلی خواہش یہی ہے کہ متعلقہ محکمے اپنا اپنا کام دیانت داری اور مہارت سے کریں تو شاید ماضی اس بری طرح یاد نہ آئے
چودھری خادم حسین
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments