جب بھی ٹی وی کھولتے ہیں کسی حادثے تصادم یا دھماکے کی خبر ملتی ہے یا پھر ایک پاکستانی کی دوسرے پاکستانی کے ہاتھوں قتل کی۔ آسان لفظوں میں ہم ایک غیر محفوظ اور بدامن معاشرے اور ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر شام کو بخیریت گھر آ جاتے ہیں اور گھر میں بھی خیریت ہوتی ہے تو یہ سب اللہ کی مہربانی ہوتی ہے ورنہ ہم نے تو اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے جو معاشرہ بنا رکھا ہے اس میں بدامنی کا ہر سبب موجود ہے مگر امن کے راستے بہت محدود ہیں۔ بچوں کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ آ جائے تو وہ فوراً ہی ایسے کارٹون لگا لیتے ہیں جن میں لڑائی مسلسل چلتی ہے۔ یوں ہم ایک بدامن اور بدامنی کو پسند کرنے والی قوم بن گئے ہیں یا بنتے چلے جا رہے ہیں۔
کسی مجرم کی پھانسی کی خبر بھی بڑے اہتمام کے ساتھ سنائی جاتی ہے اور تشدد کے معرکے بھی خبروں میں عام کیے جاتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو مجھے پرانے لاہور کی یاد سنانے لگتی ہے جہاں میں نے پہلے تعلیم اور پھر روز گار کے سلسلے میں رہنا شروع کیا تھا۔ حالت یہ تھی کہ مال روڈ کے فٹ پاتھوں پر جیبوں میں ہاتھ ڈالے سیٹی بجاتے ہوئے ٹہلا کرتے تھے اگر گھر سے اس حال میں نکلتے کہ جیب میں کچھ ڈالنا یاد نہ رہتا تو یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہوتی تھی کہ ابھی سیر کے دوران ضرورت پڑی تو کسی دوست سے لے لیں گے اور یہ دوست ہر قدم پر مل جاتے تھے۔ ان فٹ پاتھوں پر سیر کرتے ہوئے پروفیسر سراج مل جاتے تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل جو لاہور کی ایک اونچی شخصیت تھے۔
اسی طرح مجید نظامی بھی اپنی بیگم کے ہمراہ سیر میں مصروف دکھائی دیتے تھے۔ غرض لاہور میں مقیم کئی بڑے اور اونچے لوگ بھی دن بھر کی تھکان دور کرنے کے لیے ان فٹ پاتھوں پر ٹہلتے تھے اور کسی اندیشے اور تشویش کے بغیر کیونکہ یہ شہر ایک پرامن شہر تھا چوروں اچکوں کے نشانے کہیں اور تھے۔ میں ان دنوں آپ کو پرانے لاہور کی باتیں سنا کر پریشان کرتا رہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے لاہور کی بدلتی ہوئی دنیا اچھی نہیں لگ رہی مجھے راس نہیں آ رہی جس میں سکون نہیں ہنگامہ ہے بدامنی ہے اور خطرہ ہے۔
اس کے علاوہ بھیڑ بھی بہت ہے اور ہر جگہ خلق کا ہجوم دکھائی دیتا ہے اس لیے میں کوشش کرتا ہوں کہ لاہور کو کسی ایسے وقت میں دیکھوں اور ایسا وقت کم ہی ملتا ہے جب اس کے پرامن گلی کوچے ہنگامے کی زد میں نہ ہوں اور ہر طرف بازار ہی بازار نہ ہو میں ایسے پرہجوم لاہور سے میں دور بھاگتا ہوں یعنی ع بازار بنی جب میری گلی ہم نے بھی ٹہلنا چھوڑ دیا۔ میں مال روڈ پر لکشمی مینشن میں رہتا تھا جس کے سامنے ایک مشہور اسٹور تھا۔
کبھی کبھار اس میں بھی چلے جاتے تھے جس میں داخل ہوتے ہی مالکانہ کاؤنٹر پر ایک بزرگ حاجی صاحب بیٹھتے تھے اور واپسی پر وہ بچوں کو اپنے سامنے رکھے مرتبان میں سے دو ٹافیاں نکال کر دیا کرتے تھے لیکن یہ دیکھ لیتے کہ اس نے کچھ خریدا بھی ہے یا نہیں۔ خالی ہاتھ والے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ یہ اسٹور اب بھی موجود ہے بلکہ اس کی کئی برانچیں بھی کھل گئی ہیں مگر کسی برانچ میں بھی مہربان حاجی صاحب نہیں ہیں۔ یہ نیا لاہور ہے۔
لاہور دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں آج بھی ٹیکسی کار نہیں چلتی جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں تب یہاں ٹانگے چلتے تھے اور مال روڈ پر ہر وقت ٹانگے اور ان کے گھوڑے اودھم مچائے رکھتے تھے کیونکہ یہی مقبول عام ہی نہیں واحد دستیاب سواری تھی۔ آج جب میں مال روڈ پر آتا جاتا ہوں تو مجھے وہ جگہیں یاد آتی ہیں جہاں ٹانگوں کے اڈے تھے۔
گورنر ہاؤس سے لے کر لوئر مال تک کم از کم تین چار جگہوں پر ٹانگوں کے اڈے تھے جہاں سے بھاؤ تاؤ کر کے آپ لاہور کی کسی بھی جگہ کا ٹانگہ لے لیتے تھے ان اڈوں کے علاوہ مال روڈ پر خالی ٹانگوں کی آمد و رفت بھی جاری رہتی تھی جو سواری کی تلاش میں آہستہ آہستہ چلا کرتے تھے یوں سمجھیں کہ اس شہر میں سواری کی تلاش شروع دن سے جاری ہے خیال تھا کہ ٹانگوں کی جگہ ٹیکس کار لے لے گی لیکن نہ معلوم کیا ہوا کہ لاہور میں ٹیکسی کار موجود نہیں بعض جگہوں پر جیسے ریلوے اسٹیشن ایئر پورٹ وغیرہ پر ٹیکسی کار ملتی ہے لیکن من مانے کرائے پر۔
میٹر نہیں ہے کہ اس سے سفر اور کرائے کا اندازہ ہو صرف ڈرائیور ہے اور سب کچھ اس کی مرضی پر چلتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ دنیا بھر میں ڈرائیور حضرات کس مزاج کے ہوتے ہیں تو لاہور میں نہ تو ٹیکسی کار ہے نہ تانگہ ہے اور نہ کوئی اور سواری ہے سوائے بس کے اور اس کا جو حال ہے ہر لاہوری کو معلوم ہے۔ تانگے تو لاہور کی کئی معروف سڑکوں پر ممنوع ہیں یعنی اگر اپنی سواری نہ ہو تو آپ لاہور میں صرف پیدل چل سکتے ہیں اور بس۔
یوں لاہور شہر میں دنیا بھر کی معروف شہری سہولتوں کا فقدان ہے مگر پھر بھی یہ پاکستان کا ایک تاریخی شہر اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے جہاں آپ پیدل ہی چل سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے اور اتنے بڑے شہر میں سواری کا فقدان کیوں ہے اس پر شہریات کا کوئی ماہر ہی روشنی ڈال سکتا ہے مجھے اس شہر میں رہتے ہوئے ایک طویل عرصہ ہو گیا ہے اور میں نے اس شہر کی ہر اچھی اور ناگوار بات بھگتی ہے مگر عدم سواری کا مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہو سکا چنانچہ پہلے تو یہاں سائیکل تھی پھر موٹر سائیکل آئی پھر کچھ توفیق ہوئی تو ایک دوست نے جو اپنی پرانی گاڑی بیچ رہے تھے وہ رعایتاً مجھے بیچ دی اور پھر نئی پرانی گاڑی کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن لاہور میں کہیں آنے جانے کا ذریعہ بس یہی اپنی سواری ہی رہی۔ راولپنڈی لاہور سے بہت چھوٹا شہر ہے لیکن وہاں شروع دن سے ہی ٹیکسی دستیاب رہی اسلام آباد تو بعد میں بنا ٹیکسی اس سے پہلے سے چل رہی ہے مگر لاہور کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔
عبدالقادر حسن
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments