میری نگاہیں کمپیوٹر اسکرین پر ہیں اور منیزہ ہاشمی کی ای میل کھلی ہوئی ہے۔ لاہور سے فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کا بلاوا ہے۔ یہ جشن جو چھیمیاور میزو دونوں کی مشترک کاوشوں کا ثمر ہے اس کی تفصیلات ہیں۔ مجھے وہ لمحے یاد آتے ہیں جب ماسکو میں جشن فیض منایا جارہا تھا، منیزہ روسٹرم پر تھیں اور 8برس کی اس بچی کا دردِ دل بیان کررہی تھیں جس نے پس زنداں، زندگی کرنے والے باپ سے گڑیا کی فرمائش کی تھی اور جواب میں شفقت اور محبت میں شرابور ایک نظم آئی تھی۔
اس وقت میزو کو طیش آیا تھا۔ 8 برس کی ایک بچی سے ہم اور کس بات کی توقع کریں لیکن عرصے بعد انھوں نے لکھا کہ وہ گڑیا تو ٹوٹ پھوٹ گئی ہوتی لیکن اس نظم کو دنیا کے ہر اس کونے میں آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی جو فیض سے محبت کرتی ہیں۔ ماسکو میں میزو سے یہ سنتے ہوئے میری آنکھیں نم ہوگئی تھیں اور آج میزو کا لکھا ہوا بلاوا پڑھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ فیض کیسے خوش نصیب انسان تھے کہ ایلس اور بیٹیوں نے ان سے عشق کو ایک صوفیانہ روایت بنادیا۔
کہنے کو سردیاں شروع ہو چکیں لیکن 19 نومبر تک لاہور کا موسم خنک نہیں ہوا ہے۔ ائیرپورٹ سے مجھے ’الحمد‘ کے صفدر حسین نے لیا ہے اور پھر وہی ’الحمرا‘ لے کر آتے ہیں جہاں یہ پروگرام ایک دن پہلے شروع ہوچکا۔ فیض صاحب کے ایک مصرعے سے دیواروں کی آرائش کی گئی ہے۔ ’بول کہ سچ زندہ ہے اب تک‘ دل میں ہلچل مچا دینے والا کیسا کاری مصرعہ ہے۔ فیض صاحب کی یہ نظم مجھے یوں بھی بہت محبوب ہے کہ اب سے برسوں پہلے میں نے اپنے ایک افسانے کا عنوان ان کے مصرعے ’جسم و زباں کی موت سے پہلے‘ کو بنایا تھا۔ یہ نظم 1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس سے واپسی پر فیض نے لکھی تھی۔ یقین نہیں آتا کہ لگ بھگ 80برس پہلے لکھی جانے والی یہ نظم ہمارے لیے آج بھی اتنی ہی سچی ہے جتنی تاج برطانیہ کے اقتدار میں تھی۔ اسے ایک بار پھر پڑھیے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … بول زباں اب تک تیری ہے… تیرا ستواں جسم ہے تیرا … بول کہ جاں اب تک تیری ہے… دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں … تند ہیں شعلے ، سرخ ہے آہن … کھلنے لگے قفلوں کے دہانے … پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن … بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے… جسم و زباں کی موت سے پہلے … بول، کہ سچ زندہ ہے اب تک … بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے …
اسے پڑھتے چلے جائیے ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم راج اور تاج کے گنبد بے در میں آج بھی بند ہیں اور بہت سی آوازیں ہمیں یاد دلارہی ہیں بول کہ سچ زندہ ہے اب تک۔
جشن فیض، الحمرا کے مختلف ایوانوں میں بیک وقت ہورہا ہے۔ ہم کسی ایک ہی پروگرام میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ادبی بیٹھک ، جس میں ڈاکٹر طارق ہاشمی کی مرتب کی ہوئی کتاب فیض کے نایاب خطوط، کی تقریب اجرا ہو رہی ہے، میں اس میں شریک ہوتی ہوں۔ فیصل آباد سے آئے ہوئے ڈاکٹر عمران ظفر اس کتاب کے بارے میں اور اسے مرتب کرنے والے ڈاکٹر ہاشمی سے باتیں کررہے ہیں، کینیڈا سے آئے ہوئے اشفاق حسین بھی اس گفتگو میں شریک ہوجاتے ہیں۔ ’ فیض کے مغربی حوالے‘ ان کی ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔
ہال نمبر 3 میں پاکستان کی اہم ایکٹیوسٹ خواتین پر گفتگو کو، ہم بزمِ جہاں کی رونق ہیں، کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس بات چیت میں سلیمہ ہاشمی، خاور ممتاز، فہمیدہ ریاض، مریم سعید اور خاکسار بھی شامل ہیں۔ ’لوک ورثہ‘ کی فوزیہ سعید گفتگو کا آغاز کرتی ہیں اور وہی اس کو انجام تک پہنچاتی ہیں۔ اس میں ان خواتین کا ذکر آتا ہے جنہوں نے 1947 سے طاہرہ مظہر علی خان کی آخری سانس تک خواتین کے حقوق کے لیے لڑائی لڑی اور بطور خاص جب 1979 میں جنرل ضیاء الحق نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچایا اور ظلم و جبر کی ایک نئی رات پاکستان میں شروع ہوئی تو اس وقت سیاسی جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
پاکستانی عورتوں نے جمہوریت کی بحالی کا پرچم اٹھایا، سڑکوں پر نکلیں، پولیس کا تشدد برداشت کیا، فروری 1983 کے دن تھے جب عورتوں کے احتجاجی جلوس میں شرکت کرنے کے ’جرم‘ پر حبیب جالب پر بھی لاٹھیاں برسیں۔ اس روز گفتگو کے دوران لاہور کی انجمن جمہوریت پسند خواتین کے ذکر کے ساتھ ہی میں نے اس کی کراچی شاخ کی صدر ممتاز نورانی کو یاد کیا جنہوں نے ابتدائی دنوں میں کراچی کی عورتوں میں ترقی پسند خیالات کو پھیلانے میں بڑا کام کیا تھا۔ اس روز ترقی پسند سیاسی اور سماجی محاذ پر کام کرنے والی ان عورتوں کو بطور خاص یاد کیا گیا جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔
فیض صاحب کی شریک حیات ایلس فیض کے بارے میں ان کی بیٹی چھیمی نے بہت دل داری سے گفتگو کی۔ ایلس برطانوی تھیں اور انھوں نے فیض صاحب کے لیے کتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں۔
وہ جب پنڈی سازش کیس میں جیل کاٹ رہے تھے، بغاوت کے مقدمے کی اذیتوں سے گزر رہے تھے تو ایلس اپنی سائیکل پر لاہور کی گرمیاں اور سردیاں برداشت کرتیں ’پاکستان ٹائمز‘ میں ملازمت کرتیں اور اپنی بیٹیوں کے اور اپنے لیے رزق کا اہتمام کرتیں۔ چھیمی نے جس انداز میں اپنی ماں کا ذکر کیا، اسے سن کر یقیناً بہت سے لوگوں کا دل بھر آیا ہوگا۔ اس روز رعنا لیاقت علی خان اور ان کی بنائی ہوئی تنظیم ’اپوا‘ کا نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شرکت گاہ کی شہلا ضیاء، نجمہ صادق اور ’عورت فاؤنڈیشن‘ کا بھی ذکر رہا۔
سچ تو یہ ہے کہ بہت سے نام چھوٹ گئے اور بہت سے ناموں کا حق ادا نہیں ہوا لیکن ایک گھنٹے میں تو بس یہی ممکن تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں اپنی ڈیڑھ سو سالہ ادبی تاریخ میں اپنا حصہ ڈالنے والی خواتین کا بھی ذکر کرنا چاہیے جن میں اردو کی پہلی ناول نگار خاتون رشیدہ النساء بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اب سے لگ بھگ سوا صدی پہلے عورتوں کے لیے مساوی حقوق کے ساتھ ہی ’مساوی مواقع‘ کی بات بھی کی تھی۔ یہ تمام خواتین دنیا سے گزر چکیں ، ان میں سے بیشتر کے نام بھی بھلا دیے گئے لیکن یہی وہ گذشتگاں ہیں جن کی راہ پر چل کر ہم کہیں پہنچے ہیں اور سفر ابھی جاری ہے۔ یوں بھی انسان کا سفر ختم کب ہوتا ہے۔
ان دو دنوں میں بعض ایسے ناموں سے باتیں سنیں جو دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک مظفر علی ہیں ’امراؤ جان‘ والے۔ تمام نشستیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ 35 برس بعد امراؤ جان کی، مرزا ہادی سوا اور ریکھا کی باتیں ہورہی ہیں۔ مظفر علی گنگا جمنی تہذیب کی کتھا کہانی سنا رہے ہیں۔ یہ باتیں کرنے والے اور ان باتوں سے اداس ہونے والے اب ہمارے درمیان سے اٹھتے جاتے ہیں۔ فیض صاحب کا صدقہ ہے کہ نئی نسل بھی ان معاملات کو سن رہی ہے۔ روایت کا سلسلہ اسی طرح سفر کرتا ہے، ایک شمع سے دوسری شمع جلتی ہے۔
میزو اور چھیمی کو اس بات کی بہت داد ملنی چاہیے کہ انھوں نے ڈاکٹر عبدالسلام میموریل لیکچر کا اہتمام کیا اور لندن سے بائیں بازو کے مشہور دانشور طارق علی کو دعوت دی کہ وہ ’اکیسویں صدی میں جنگ اور امن، کے موضوع پر گفتگو کریں۔ پاکستان کے بیٹے عبدالسلام کو خراجِ عقیدت ادا کرنے کے لیے مظہر علی خاں اور طاہرہ مظہر علی خاں کے بیٹے طارق علی سے مناسب اور کون ہو سکتا تھا۔
فیض کی اس محفل میں، پشپا کماری کا دسترخوان، بھی موجود تھا۔ اور اسے دلی سے لے کر آئی تھیں ، دیپا سنگھ بگائی، اتل بگائی اور خاندان کے دوسرے افراد ۔ یہ کتاب جو ہندی اور اردو دونوں میں شایع ہوئی ہے، اس پر گفتگو سرائیکی میں ہوئی۔ اور اس کتاب کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم داتا دربار کو نذر کی گئی۔
’ادبی بیٹھک‘ میں ایک محفل مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ہوئی اور ایک ترقی پسند لکھنے والوں اور سیاست کے بارے میں بھی ہوئی جس کے میزبان فیض کے نواسے ڈاکٹر علی ہاشمی تھے۔
اصغر ندیم سید کے ساتھ اس خاکسار نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر علی ہاشمی نہایت شائستہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں ۔ ان کی باتیں سن کر جی خوش ہوتا ہے کہ فیض صاحب کی وراثت ان کے حصے میں بھی آئی ہے۔ فیض کا یہ جشن دراصل علم و ادب کا اور رقص و موسیقی کا جشن تھا۔ اس میں شرکت کے لیے نصیر الدین شاہ آئے اور افسوس کہ رخشندہ جلیل نہ آسکیں۔ یہ سرحدیں جو ستم نہ کریں وہ کم ہے، لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ اتنے لوگ بہم ہوئے، اتنی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ باتیں بھی ہوئیں جو عام حالات میں نہیں ہوتیں اور وہ نام محترم ٹھہرے جو ارباب اقتدار کے خیال میں معتوب و مقہور ہیں۔ فیض نے کیا خوب کہا تھا:
قفس ہے بس میں تمہارے ، تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گُل کے نکھار کا موسم
زاہدہ حنا
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments