Lahore

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.Visit their website at: https://dusp.org/

لاہور میں جان کی امان

کوئی دن نہیں جاتا بلکہ ایسی کوئی صبح دوپہر اور شام نہیں جاتی کہ ملک میں کہیں نہ کہیں کوئی جان لیوا حادثہ نہیں ہو جاتا۔کھلی سڑکوں پر حادثے شہروں اور آبادیوں کی گلیوں میں حادثے‘ پہاڑی راستوں پر حادثے‘ تخریب کاروں کے خونریز دھماکوں کا مسلسل اور جان لیوا خطرہ اور حد تو یہ ہے کہ ریلوں کی پٹڑیوں پر ریل گاڑیوں کے حادثے اور اس طرح ملک بھر میں کسی طرف بھی آمدورفت سے خوفزدہ خلقت جو ہر وقت کسی نہ کسی حادثے سے ڈری سہمی رہتی ہے اور دن رات جان بچاتی پھرتی ہے۔

قدرتی موت تو جب آئے گی دیکھی جائے گی اس کا وقت مقرر ہے اور انسان کے اختیار سے باہر ہے لیکن یہ اموات جو ہماری لاپروائی سے آتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے قدرت نے خود چند انسانوں کو بھی موت کا فرشتہ بنا دیا ہے یہ سب عوام کو ہر وقت ہراساں اور خوفزدہ رکھتے ہیں۔ صبح جب کوئی کام کاج پر گھر سے نکلتا ہے تو اسے سلامتی کی دعائیں ملتی ہیں کہ وہ خیریت سے گھر لوٹ آئے جیسے وہ جنگ پر جا رہا ہے کسی پرامن دفتر یا فیکٹری میں نہیں جا رہا۔ زندگی کا خطرہ ہر سمت منڈلا رہا ہے اور ہمارے پرامن شہر بھی اب امن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
جن شہروں میں ہم راتوں کو گھوما کرتے تھے اور ناصر کاظمی جیسے شاعروں کے دیوان مرتب ہوتے تھے، اب ان گلیوں میں چوروں ڈاکوؤں کا راج ہے اور کسی شاعر کی کیا مجال کہ وہ رات گئے ٹی ہاؤس سے نکل کر کسی خاموش سڑک پر قدم رکھ سکے۔ اول تو اب کسی کو خالی سڑک ملے گی ہی نہیں اور اگر مل بھی گئی تو وہ کسی چور اچکے سے خالی نہیں ہو گی۔

ہر صبح کے اخبار ہمیں اپنے شہر کی وارداتوں کی تفصیل بتاتے ہیں اور ان کے صفحات شہریوں کے خون سے رنگین ہوتے ہیں، ساتھ ہی روٹین کے مطابق پولیس کی کارروائی بھی درج کی جاتی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مشکوک ملزم گرفتار کر لیا گیا اور بس۔ جب کہ بات صرف کسی ملزم کی گرفتاری پر ختم نہیں ہوتی یہ سلسلہ بہت آگے تک جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملزم عادی چور ہے یا وقتی طور پر اس نے کسی مجبوری کے تحت یہ حرکت کی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ لاہور شہر میں ہی ہر تھانیدار کو علم ہوتا تھا کہ اس کے علاقے میں بدمعاش اور بدکردار لوگ کتنے اور کون ہیں ان بدامن لوگوں پر مسلسل نظر رکھی جاتی تھی اس سلسلے کے سزا یافتہ اور عادی مجرموں کو ہفتہ وار تھانے کی حاضری پر پابند بھی کیا جاتا تھا تاکہ وہ نگاہ میں رہیں لیکن اب یا تو آبادی بڑھ گئی ہے یا پولیس کم ہو گئی ہے کہ مجرموں کا ان کے گھروں تک تعاقب اور نگرانی نہیں کی جاتی، پہلے ایک طریق کار تھا ۔

جس کے تحت جرم سے پہلے جرم کو روکنے کا ایک نقشہ ہوا کرتا تھا اور ہر تھانے میں اس پر عمل ہوتا تھا لیکن اب یہ سختی ختم ہو چکی ہے اور مجرم اور پولیس دونوں آزاد ہیں۔کوئی پکڑا جائے تو اس کی نالائقی۔ پولیس کے پاس اب ایک مستقل عذر اور بہانہ موجود ہے کہ سیاسی مداخلت بڑھ گئی ہے یہ درست ہے کہ سیاستدان کارآمد بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہیں لیکن تھانیدار بھی اب وہ نہیں رہے جو کسی سیاستدان سے جان چھڑا لیتے تھے اور خود اس کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اس سے سیاسی دباؤ بھی کم کرا لیتے تھے۔

قارئین کو معلوم ہے کہ جدید ریاست کا اصل مقصد عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے جو حکومت اس میں کامیاب نہیں ہوتی وہ ایک ناکام اور نااہل حکومت سمجھی جا سکتی ہے اور اگر الیکشن منصفانہ ہوں تو اس میں حکومت کو پرابلم پیش آتی ہے کیونکہ عوام کو جب اپنی جان و مال کی حفاظت خطرے میں دکھائی دیتی ہے تو وہ حکومت سے بے زار ہو جاتے ہیں۔

امن و امان کی خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے جب پولیس اور امن قائم رکھنے اور قائم کرنے والے ادارے دباؤ میں آ جاتے ہیں اور ان کا کام سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے بدقماش اور بدکن گروہوں کی کمی نہیں ہے جو پولیس کی سستی کی تاڑ میں رہتے ہیں اور فوراً ہی وارداتیں شروع کر دیتے ہیں، آپ ان دنوں اخباروں میں پڑھ رہے ہوں گے کہ گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور ڈاکو گھریلو سامان لوٹ رہے ہیں ان میں ہر طرح کا گھریلو سامان اور زیورات وغیرہ ہوتے ہیں ان دنوں جس گھر میں ایک بار ڈاکہ پڑ جائے وہ تو گویا زندگی بھرکی کمائی سے محروم ہو گیا۔

جو لوگ پولیس اور چوروں اچکوں کو جانتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ اگر پولیس چاق و چوبند ہو تو ایسے بے تکلفانہ ڈاکے بہت کم ہو جاتے ہیں اور دن رات میں کچھ امن قائم ہو جاتا ہے ورنہ شہروں میں تو ہر گھر صبح مردوں سے خالی ہو جاتا ہے اور خواتین ان مسلح ڈاکوؤں کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہیں۔ صرف پولیس کا ڈر ہی گھروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے اگر ہماری پولیس اپنا کام شروع کر دے تو امن و امان کی صورت بہت بہتر ہو سکتی ہے اور کوئی شاعر راتوں کی خاموشی اور چاند کی چاندنی سے لطف اندوز ہونے کے لیے لاہور کے خوبصورت اندھیروں میں کمزور اسٹریٹ لائٹوں کی روشنی میں بھی گھوم پھر سکتا ہے۔

ان دنوں مجھے لاہور کی راتیں اور ان کا امن اور سحر بہت یاد آ رہا ہے بطور اخباری رپورٹر زندگی کا بڑا حصہ لاہورکی راتوں میں گھومتے پھرتے گزرا اور راتیں خواہ کتنی بھی تاریک ہوں وہ ہمیں گھومنے پھرنے سے نہیں روکتی تھیں اور دن کی طرح رات کا ایک بڑا حصہ بھی خبروں کی تلاش میں گزر جاتا اور یہ تلاش بڑی ہی پر لطف ہوا کرتی کیونکہ جب کوئی اچھی سی خبر مل جاتی تو دفتر جا کر بڑے طنطنے سے نیوز ایڈیٹروں کو چائے کے لیے کہا جاتا اور پھر وہ خبر جو بڑی سرخی بن سکتی تھی اور جس کی انھیں ضرورت تھی کہ پہلا صفحہ مکمل نہیں ہو رہا تھا ان کی خدمت میں پیش کر کے ان کی چائے حلال کر لی جاتی تھی۔
لیکن یہ سب ایک آباد اور بے خوف و خطر لاہور کی باتیں ہیں۔ آج کے لاہور کو آپ جانتے ہیں۔ جان کی امان درکار ہے ہر وقت

عبدالقادر حسن

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments